کا جو جذبہ پیدا ہورہا تھا، اس کو انہوں نے شدت سے ناپسند کیا، وہ استعجاب اور پریشانی کے عالم میں لباس کی تبدیلیوں اور تیزی سے کے ساتھ ڈھیلے ڈھالے اور ساتر مصری لباس کے مقابلہ میں چست و کوتاہ مغربی لباس کو دیکھ رہے تھے، جو اس تیزی کے ساتھ عورتوں میں مقبول ہورہا تھا کہ جس کا ان کو پہلے سے کوئی اندازہ نہ تھا۔‘‘ ۱؎
ان مصری خواتین کا ذکر کرتے ہوئے جنہوں نے اس تحریک میں خاص دلچسپی لی اور اس سلسلہ میں یورپ و امریکہ تک کا سفر کیا وہ لکھتے ہیں:۔
’’آزادیٔ نسواں کی اس تحریک کی علمبرداری خاص طور پر علی باشا شعراوی کی بیگم ہدیٰ شعراوی نے کی، انہوں نے ایسی جرأت و جدت سے کام لیا جس کی اب تک کسی مسلمان خاتون نے ہمت نہیں کی تھی، انہوں نے مغربی عورت کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے پیرس اور امریکہ کا سفر کیا، وہ اخباری نمائندوں کے بے تکلف بیان دیتیں اور اپنے تاثرات اور خیالات کا آزادانہ اظہار کرتیں۔‘‘ ۲؎
مصر میں مستشرقین کی صدائے بازگشت
یورپ سے تعلیم پا کر آنے والے عرب فضلاء کی حالت یہ تھی کہ مغربی روح ان کے اندر پوری طرح سرایت کرچکی تھی، وہ اسی کے دماغ سے سوچتے تھے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسی کے پھیپھڑوں سے سانس لیتے تھے، وہ اپنے مستشرق اساتذہ کی صدائے بازگشت بن کر وہی خیالات و نظریات پورے یقین و وثوق اور پورے جوش اور سرگرمی کے ساتھ اپنے ملک میں پھیلانے کی کوشش کرتے، دنیا کے کسی گوشہ میں اگر کوئی مستشرق کوئی نظریہ یا
------------------------------
۱۔ الاتجاہات الوطنیہ فی الادب المعاصر، ج ۲، ص: ۲۲۵
۲۔ ایضاً