کی دعوت (جو حال میں زیادہ نمایاں ہوگئی ہے) ان سب چیزوں میں مغربی فکر بلکہ مغربی طرز ادا اور تعبیر تک کے گھنے سائے آپ کو اہل عرب کے دماغوں اور ان کی تحریروں پر اپنے بازو پھیلائے ہوئے نظر آئیں گے، وہ اس پر اس طرح چھا گئے جس طرح بڑے درخت نوخیز پودوں کو اپنے سایہ میں لے لیتے ہیں، مغربی فکر کا عکس ان پر اس طرح پڑتا نظر آتا ہے، جس طرح کسی صاف شفاف آئینہ میں آفتاب کا عکس۔
اسلامی معاشرہ میں مغربی افکار کے اس فاتحانہ داخلہ اور غلبہ و نفوذ کی شہادت ایک مستشرق عالم نے بھی دی ہے، جس نے مشرقِ اسلامی کا قریب سے مطالعہ کیا ہے، اور اس کے فکری رجحانات سے اس کو گہری واقفیت ہے، گب (A. R. GIBB) اپنی کتاب (WHITHER ISLAM) میں لکھتا ہے:۔
’’اگر ہمیں مغربی اثر و نفوذ کا صحیح پیمانہ درکار ہے، اور ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مغربی ثقافت اسلام (مشرقی ممالک کے تعلیم یافتہ مسلمانوں) کے رگ و پے میں کس طرح سرایت کرگئی ہے تو اس کے لئے ہم کو سطحی مظاہر سے نیچے اترنا ہوگا، ہم کو ان جدید افکار اور نئی تحریکات پر غور کرنا ہوگا، جو محض مغربی طریقوں اور اسالیب سے گہرے تاثر کا نتیجہ ہیں، اور محض ان کے اثر سے پیدا ہوئی ہیں، مشرقی فکر ان کو پورے طور پر ہضم کرکے ان کو نئی قائم ہونے والی اسلامی سلطنتوں کا اس طرح جزو بنا دینا چاہتا ہے، جو ان کے حالات کے ساتھ میل کھا سکے۔‘‘۱؎
تالیف وترجمہ کی تحریک کا رخ ادبیات کی طرف اور طبع زاد کام کی کمی
یہ ادباء واہل قلم اپنے ملک اور ملت پر اور اپنی زبان و ادب پر بڑا احسان کرتے
------------------------------
۱۔ P. 328