یقین جو ان کے راستہ پر چلتے رہے، اور ان کی ہدایت پر عمل پیرا رہے۔
یہ ان کا مزاج اور سرشت بن گئی تھی، اور ایک ایسی تاریخی حقیقت، جس میں شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں، یہ وہ نقطہ ہے جہاں آسمانی مذاہب اور نبوت کی تعلیمات یا (اگر یہ تعبیر صحیح ہو) مدرسہ نبوت مادی فلسفوں اور اس مادی فکر سے ٹکراتا ہے جس کا اصرار یہ ہے کہ یہی دنیا سب کچھ ہے، یہی انسان کا منتہا ہے، چنانچہ وہ اس کی تعریف و تقدیس، اور اس کی عزت و محبت میں اور اس کو آرام دہ اور اچھے سے اچھا بنانے میں مبالغہ سے کام لیتا ہے۔
دینی و روحانی قدروں سے باغی تہذیب
یہ انسانیت کی ایک بہت بڑی ٹریجڈی اور تاریخ کا عظیم المیہ تھا کہ مغربی تہذیب اس زمانہ اور اس قوم میں وجود میں آئی جو ایمان بالغیب جیسی دین کی بنیادوں سے باغی تھی، اور دین کے ان نام نہاد علمبرداروں سے سخت بیزار اور متنفر تھی، جنہوں نے دین کو اپنے ذاتی مصالح اور نفسانی خواہشات کا تابع اور آلہ کار بنا رکھا تھا۔ ان کی بدکرداری، ان کی وحشت و جہالت اور علم و عقل کے راستہ میں رخنہ اندازی کی کوشش سے وہ ان سے برافروختہ و بیزار تھی، چنانچہ تہذیب و صنعت اور تیز مادی رجحان ساتھ ساتھ آگے بڑھے، یہ رجحان یہ تھا کہ زندگی کی تنظیم خالص مادی بنیادوں پر کی جائے، جس میں انسانیت اور معاشرہ انسانی کا اس کے خالق و رب سے کوئی تعلق نہ ہو، یہ سب ان اسباب اور یورپ کے مخصوص حالات کا نتیجہ تھا، جن حالات میں اس تہذیب کا نشو و نما ہوا، وہ مادی اسباب اور کائناتی قوتوں پر قابو پاچکی تھی، اور سائنس اور صنعتی علوم میں