نئے معاشرہ کی تشکیل وتعمیر میں ان کے عظیم امکانات پر پورا یقین رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں جو ۱۹۳۲ء میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں دیا تھا، مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’جس دین کے تم علمبردار ہو وہ فرد کی قدرو قیمت کو تسلیم کرتا ہے، اور اس کی اس طرح تربیت کرتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ خدا اور بندوں میں صرف کردے، اس دین قیم کے مضمرات ابھی ختم نہیں ہوئے، یہ دین اب بھی ایک نئی دنیا پیدا کرسکتا ہے، جس میں غریب امیروں سے ٹیکس وصول کریں، جس میں انسانی سوسائٹی معدوں کی مساوات پر نہیں بلکہ روحوں کی مساوات پر قائم ہو۔‘‘
جدید اسلامی تجربہ گاہ
ان کو پورے اخلاص کے ساتھ اس کا یقین اور احساس تھا کہ ایک ایسا خود مختار خطہ مسلمانوں کے لئے بے حد ضروری ہےجہاں اسلامی زندگی کا ’’عمل‘‘ اپنے سارے شعبوں اور پہلوؤں کے ساتھ جاری رہ سکے اور شریعتِ اسلامی اور زندگی کا اسلامی طریقہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور جوہر کا آزادی کے ساتھ اظہار کرسکیں اور چونکہ ہندوستان ہی (جیسا کہ انہوں نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے اجلاس کے خطبۂ صدارت میں کہا تھا) ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے بڑا اسلامی مجموعہ آباد ہے، اس لئے وہ اس تجربہ کے لئے سب سے زیادہ موزوں جگہ ہے، اور یہاں وہ اسلامی مرکز (زیادہ گہرے الفاظ میں وہ لیبورٹری) قائم ہوسکتا ہے، جہاں صالح سوسائٹی کی تشکیل، اجتماعی زندگی کی تنظیم، اقتصادی مسائل کا حل اور تہذیب کی صحیح و پاکیزہ رہنمائی، عقیدہ اور عمل، مادیت اور روحانیت اور فرد وجماعت کی