قالب میں ڈھالیں، ہم نے ایک ایسے معمل کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جہاں ایک ایسی حکومت بنائی جاسکے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو، جن سے بہتر اصول دنیا پیدا نہیں کرسکی۔‘‘ ۱؎
لیکن یہ تجربہ جو اپنی اہمیت، نزاکت اور اپنے دور رس نتائج کے اعتبار سے تاریخ کا ایک اہم ترین اور عہدآفرین (EPOCH-MARKING) واقعہ تھا، ان ہی رہنماؤں کے ہاتھوں کامیاب ہوسکتا تھا، جو اسلامی شریعت کی ابدیت اور اسلامی تہذیب کی برتری پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہوں، جن کا خلوص اور صداقت خود غرضی، مفاد پرستی اور مصلحت کوشی سے پاک اور ہر شبہ سے بالاتر ہو، ان کا ذہن مغربی اقدار وافکار کی غلامی، اور ان کی سیرت غیر اسلامی تعلیم و تربیت کے اثرات سے بالکلیہ آزاد ہوچکی ہو اور ایمانِ راسخ اور اخلاقی جرات کے ساتھ وہ جدید علوم کے پیدا کردہ وسائل اور قوتوں کو اپنے اعلیٰ دینی واخلاقی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی قدرت اور آزاد وجدید اسلامی معاشرہ کے ماحول کے مطابق ان کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
نازک امتحان
لیکن اس تجربہ کو کامیاب بنانے اور تاریخ کے اس نادر و زریں موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے (جو صدیوں کی مدت میں کسی قوم کو مل سکتا ہے، اور مخصوص سیاسی و بین الاقوامی حالات کی بنا پر ہندوستان کی ملت اسلامیہ کو حاصل ہوا تھا) جن وسیع صلاحیتوں اور خصوصیتوں کے اشخاص درکار تھے، ان کے انتخاب پر مناسب توجہ نہیں کی گئی، اور ان کی تربیت اور تیاری کے لئے مناسب اور ضروری وقت نہ مل سکا اور نہ اس کو ضروری سمجھا گیا،
------------------------------
۱۔ نوائے وقت ۸ جنوری ۱۹۵۰ء