عبادت و سکینت کا ایک مخصوص جزیرہ بن کر رہ جائے، جس کے اردگرد مادی تہذیب کا سمندر موجیں مار رہا ہو، اور اس کی سرکش لہریں ان کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہوں اور بڑھتی چلی آتی ہوں۔
محض معاشرتی روایات اور ملکی رسم ورواج کسی تازہ دم تہذیب کا مقابلہ نہیں کرسکتے
یہ منفی دور یا وقفہ درحقیقت کسی مشرقی ملک میں زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتا، اس لئے کہ وہ روایات اور رسم و رواج یا وہ معاشرتی اور تنظیمی ڈھانچہ جس کے پیچھے فہم وبصیرت پر مبنی کوئی طاقتور عقیدہ نہ ہو نیز اس کے ساتھ ذہانت اور ذکاوت اور اس بدلتی ہوئی دنیا کے حقائق پر اسلام کے ابدی اصولوں کے منطبق کرنے کی قابلیت اور تہذیب جدید کے صالح اور مفید اجزاء اور غیر صالح اور غیر مفید اجزاء میں تمیز کی مکمل صلاحیت نہ ہو، اس تند و تیز تہذیب کے مقابلہ میں زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں سکتا، اور اس سے قوم کی حفاظت نہیں ہوسکتی، ہر وہ ملک جو اپنی قدیم روایات کو عزیز رکھتا ہے لیکن ان کو برقرار رکھنے اور ان کی توسیع کی صلاحیت سے محروم اور طاقتور ایمان اور پختہ کار عقل سے عاری ہے، اس کی قسمت میں دیر یا سویر زوال و انحطاط کے سوا کچھ نہیں۔
اسی طرح اگر مغربی تہذیب اور اس کے وسائل و ثمرات سے استفادہ باقاعدہ سوچی سمجھی اسکیم بصیرت و تدبر، اور خیرو شر میں تمیز کی بنیاد پر نہ ہوا تو یہ تہذیب ملک کے رہنماؤں اور اربابِ حل وعقد اور علمائے دین کی مرضی اور خواہش کے خلاف اس ملک یا سوسائٹی پر جبراً قابض ہوجائے گی، عوام گرمجوشی کے ساتھ اس کا خیرمقدم کریں گے، ادباء اور اہلِ فکر اس کے لئے راستہ صاف کریں گے، اور خیرو شر اور مفید و مضر میں تمیز کیے بغیر اس ملک کے باشندے فاقہ زدوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑیں گے، ساری اخلاقی و دینی قدریں اس کے ساتھ فنا ہوجائیں گی، ملک کے رہنما اور ذمہ دار وسیاست داں اس صورتِ حال کے سامنے