کی ہر نسل اور ہر کھیپ کو مغرب ہی کے وسائل اور ماخذوں سے استفادہ کرنا پڑتا ہے، جو اس عرصہ میں خود کہیں سے کہیں پہونچ جاتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے ک سائنسی معلومات اور صنعتی صلاحیت اور ان کے نتیجہ میں فوجی طاقت میں مشرقِ وسطیٰ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے درمیان آج اس سے زائد تفاوت نظر آتا ہے، جتنا آج سے سو یا پچاس سال پہلے نظر آتا تھا، جب کہ مشرقِ وسطیٰ کو مغرب بنانے کی کوشش کا آغاز ہوا تھا۔‘‘۱؎
مغربی زندگی کی ایک تصویر
اس دور میں مصر کے بعض ادباء و مصنفین نے مغربی تہذیب کو پورے طور پر قبول کرلینے اس تہذیب و تمدن کو اپنے لئے ایک اعلیٰ اور مثالی نمونہ (آئیڈیل) تصور کرنے کی علانیہ دعوت دی، مصر پر مختلف اسباب کی بنا پر مغربی تہذیب کا رنگ روز بروز گہرا ہوتا جارہا تھا، وہ برابر مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا، قریب تھا کہ اس تعلیم یافتہ اور مرفہ الحال طبقہ مغربی معاشرہ و تہذیب کی ہوبہو تصویر بن جائے، مصر نے اس میدان میں اتنا فاصلہ طے کرلیا تھاکہ ۱۹۳۸ء میں ڈاکٹر طٰہٰ حسین نے اس کو مغربی زندگی و تہذیب کا نمونہ قرار دیا، وہ اپنی مشہور و مقبول کتاب ’’مستقبل الثقافۃ فی مصر‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’ہماری مادی زندگی سوسائٹی کے اونچے طبقوں اور خاندانوں میں خالص مغربی ہے، دوسرے طبقوں میں (افراد اور جماعتوں کے معیارِ زندگی اور وسائل کے بقدر) وہ مغربی زندگی سے متاثر ہے، جن کا معیارِ زندگی بلند ہے، اور ان کے پاس وسائل زیادہ ہیں، وہ
------------------------------
۱۔ (BERNARD LEWIS) کا مضمون بعنوان: (THE MIDDLE EAST VERSUS THE WEST) مندرجہ مجلہ (ENCOUNTER, OCT. 1963)