تعلیم کو نئے سرے سے اس طرح ڈھالا جائے کہ وہ اسلام کے عقائد و اصول اور عصرجدید کے تغیرات اور علوم ووسائل دونوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور دونوں کے تقاضے پورے کرتا ہو اور نئی نسل میں ایک طرف ایمان و یقین اخلاقی قوت، استقامت، خود اعتمادی و خودداری اپنے دین پر غیر متزلزل یقین اور اس کے لئے قربانی کا جذبہ دوسری طرف قوتِ ایجاد، فکری استقلال، بلند ہمتی اور اولوالعزمی پیدا کرے اور جرات و ذہانت کے ساتھ مغرب کا مقابلہ کرنے کا جوہر اور اوصاف پیدا کرسکے۔
اس انتشار اور بغاوت سے بچنے کے لئے عوام میں دینی روح، طاقتور ایمان، اخلاقی حِس اور اسلامی شعور پیدا کرنا ہوگا، اس ذہنی انتشار اور بے دلی اور بغاوت کے جراثیم کا خاتمہ کرنے کے لئے ان کے اسباب و محرکات کا مکمل ازالہ، حالات کی عمومی اصلاح، اور سیرت وکردار میں تبدیلی کی ضرورت ہے، مغرب سے وہ لینا ہوگا جو اسلامی ممالک اور معاشرہ کے لئے مفید اور اس کے عقیدہ سے ہم آہنگ ہے اور بجائے خود کوئی عملی اور ایجابی افادیت رکھتا ہے، اور قوم وملک کو مضبوط کرسکتا ہے، اور زندگی کی جدوجہد، سرفروشی اور دعوت الی اللہ کے مقصد میں مفید ہوسکتا ہے۔
واحد ادارہ
اسلامی مشرق میں قیام امن کے لئے اور مسلمان اقوام کو اپنے عقیدہ و اسلامی زندگی پر قائم رکھنے کے لئے آج کوئی اور دوسرا راستہ نہیں ہے، زیادہ ٹھوس علمی تعبیر میں، ’’عالمِ اسلام کو دراصل ایک ایسی ترقی پذیر عادلانہ اسلامی سوسائٹی کی تشکیل کی ضرورت ہے، جس میں اسلامی طریقہ زندگی کو اپنے عملی وثقافتی اظہار اور نمود کا پورا موقع مل سکے۔‘‘ ۱
------------------------------
۱۔ یہ تعبیر محمد اسد صاحب کی کتاب ROAD TO MECCA سے لی گئی ہے!