کے لئے تیار ہے۔
مغربی تہذیب سے استفادہ کے میدان میں ترکی کا پارٹ خالص تقلیدی پارٹ تھا، جو ہرقسم کی تخلیقی قوت، جدتِ فکر، خودکفالتی، بلند خیالی اور حوصلہ مندی سے خالی تھا، اس نے اس تہذیب پر اپنی سیادت (SUPREMACY) قائم کرنے کے لئے جو مادہ پرست مغرب سے آئی تھی، اور جس کا خواب ضیاء گوک الپ نے اپنے گذشتہ مقالہ میں دیکھا تھا کوئی ٹھوس اور سنجیدہ کوشش نہیں کی، وہ اس کی قیادت پر قبضہ کرنے اور اس پر قابو حاصل کرنے میں پوری طرح ناکام رہا، اس کا پارٹ صرف ’’درآمد‘‘ (IMPORT) کرنے، مستعار لینے یا نقل کرنے کا تھا، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم، چنانچہ اس دور میں نہ تو سائنسی علوم میں کوئی ممتاز عالم ترکی میں پیدا ہوا، نہ دوسرے علوم و فنون میں کوئی اہم شخصیت نمودار ہوئی، نہ فکر اور فلسفہ کے شعبہ میں کسی نئے مدرسہ اور مکتبِ خیال کا بانی ترکی کو نصیب ہوا، نہ کوئی ایسی شخصیت سامنے آئی جو اس تہذیب میں کسی ایسی چیز کا اضافہ کرے جس کی بجائے خود کوئی علمی قیمت اور افادیت ہو، یہی وجہ ہے کہ آج یہ قوم ایک تیسرے درجے کی قوم کی حیثیت سے مغربی ممالک کے زیرسایہ پل رہی ہے، ترکی کا موجودہ انقلاب اس سیاسی عظمت، بین الاقوامی وقار، دینی حمیت اور گرم جوشی، اخلاقی اقدار و محرکات اور عالم اسلام کی قیادت و رہنمائی کی قیمت کسی طرح نہیں بن سکتا جس کی قربانی ترکی کو دینی پڑی ہے۔
نامق کمال
مغربی تہذیب و علوم سے استفادہ کی زیادہ متوازن دعوت اور ترکی و مغرب جدید کے تعلق کی نوعیت کی بہتر وضاحت ترکی کے ایک پیش رو مفکر نامق کمال١؎ کے خیالات و مضامین میں
------------------------------
١؎ نامق کمال ۱۸۴۰ء میں (RHOBOSTO) میں پیدا ہوا وہ ایک خوش حال اور امیر خاندان کا فرد تھا گھر پر (باقی ص: ۶۹ پر)