بے دست و پا اور مفلوج نظر آئیں گے اور ان کے ہاتھ سے زمامِ قیادت ہمیشہ کے لئے نکل چکی ہوگی۔
تہذیبی و تعلیمی منصوبہ بندی اور دانشمندانہ اقدام کی ضرورت
بغیر کسی استثناء کے تقریباً سارے مشرقی ممالک اس دورِ آخر میں ایک ایک کرکے مغربی تہذیب کا لقمۂ تر ہوچکے ہیں، اور بغیر کسی مزاحمت کے یہ سیلاب بلاخیز ان کو بہا لے گیا ہے، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی قیادت غیر معمولی اور متوازن عقل اور انتخاب و تمیز کی ضروری صلاحیت سے محروم تھی اور تصویر کے دونوں رخ اس کی نظر کے سامنے پوری طرح نہیں آسکے تھے، نظامِ تعلیم اور ملک کی تنظیمِ نو کی بنیاد حکیمانہ منصوبہ بندی (PLANNING) اور جدید تجربوں پر نہیں تھی۔
اس کے علاوہ (اور سب سے بڑھ کر) صحیح اسلامی تعلیمات سے انحراف کی وجہ سے ملک میں ایسے حالات اور ایسی فضا پیدا ہوگئی تھی، جس کو عقل اور انصاف کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں سمجھا جاسکتا اور ان میں کسی زمانہ میں بھی باقی رہنے کی صلاحیت نہیں تھی، نہ کہ اس بے چین تغیر پذیر اور تغیر پسند عہد میں!
افغانستان کے ساتھ (جو پورے مشرق میں اپنے رسم ورواج کی پابندی اور قدیم افغانی روایات پر اصرار میں مشہور ہے) یہی ٹریجڈی پیش آئی، ایک عرصہ تک وہ مغربی تہذیب کے اثرات اور ہر قسم کی اچھی بری تبدیلیوں سے محفوظ رہا، قدیم تہذیبی ومعاشرتی روایات و رسول کو دانتوں سے پکڑے رہا، وہ جدید تہذیب کے صالح اور مفید اجزاء بھی قبول کرنے کا روادار نہ تھا۔
روس اور ہندوستان (جو اس وقت سلطنتِ بطانیہ کا ایک اہم جز تھا) کے درمیان واقع ہونے اور ان عظیم ذمہ داریوں، نزاکتوں اور خطرات کے باوجود جو اس کے اہم جائے وقوع اور وقت کی نزاکت کی وجہ سے اس کو درپیش تھے، وہ تعلیمی، صنعتی اور فوجی نقطۂ نظر سے ایک نہایت پسماندہ ملک تھا، بیسویں صدی کی ابتدا میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوجانے کے بعد تک وہ علوم جدیدہ، نئی تنظیمات