مغربی زندگی سے زیادہ متاثر و قریب ہیں، اور جن کے پاس اس کی کمی ہے، وہ (مجبوراً) اس سے دور ہیں، اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ ایک مصری کی دنیاوی اور مادی زندگی کے لئے اعلیٰ نمونہ (آئیڈیل) وہی ہے، جو ایک مغربی کی مادی زندگی کا ہے۔‘‘۱؎
’’ہماری معنوی زندگی اپنے مظاہر کے اختلاف کے ساتھ خالص مغربی ہے، ہمارا نظام حکومت خالص مغربی ہے، ہم نے اس کو یورپ سے بغیر کسی تردد اور خلش کے جوں کا توں منتقل کیا ہے، اگر ہم اپنے کو اس معاملہ میں کچھ ملامت کرسکتے ہیں تو صرف یہ کہ ہم نے اہل یورپ سے ان نظاموں اور سیاسی زندگی کی شکلوں کو منتقل کرنے میں سستی اور تاخیر سے کام لیا۔‘‘ ۲؎
’’تعلیم کو دیکھئے، تقریباً ایک صدی سے اس کا نظام کیا ہے، اور وہ کس بنیاد پر قائم ہے؟ خالص مغربی طرز پر، اس میں کسی شبہ اور اختلاف کی گنجائش نہیں، ہم اپنے پرائمری وسکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے مرحلوں میں اپنے بچوں کو خالص مغربی سانچہ میں ڈھالتے ہیں، جس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہیں ہوتی۔‘‘ ۳؎
ان سب باتوں کے آخر میں وہ حسب ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں:۔
’’یہ سب باتیں اس بات کی علامت ہیں کہ ہم عصرِ حاضر میں یورپ سے ایسا قرب اور رابطہ رکھنا چاہتے ہیں جو روز بروز بڑھتا رہے، یہاں تک کہ ہم لفظ اور معنیٰ، حقیقت اور شکل ہر اعتبار سے اس کا ایک حصہ بن جائیں۔‘‘ ۴؎
مصر کو یورپ کا ایک ٹکڑا سمجھنے کی دعوت!
ڈاکٹر طہٰ حسین، جدید عربی ادب کے سرخیل اور نوجوانوں اور نئے لکھنے والوں کے
------------------------------
۱۔ ص: ۳۱
۲۔ ص: ۳۲
۳۔ ص: ۳۶
۴۔ ص: ۳۴