جدید ترکی میں آج بھلا دئیے گئے ہیں، یا اگر وہ آج معمولی سمجھے جاتے ہیں، اور ان میں پوری ندرت نہیں نظر آتی ہے، جبکہ ان کے زمانہ میں وہ نئے اور اچھوتے خیال کئے جاتے تھے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ نظریات اب حقائق بن گئے ہیں، اس سبب سے ان کے اثر کی گہرائی اور ان کی نظر کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔‘‘١؎
ترکی کا تقلیدی کردار
مغربی تہذیب پر سیادت قائم کرنے کی دعوت کے حامل و رہنما (جن کی قیادت ضیاء گوک الپ کررہے تھے) عالم اسلام کے آزاد فکر اشخاص اور منصف مؤرخین کے حلقہ میں بڑے احترام کے مستحق تھے، اور دنیا کے سیاسی، ثقافتی اور اجتماعی نقشہ میں ترکی ایک اہم ترین کردار ادا کرسکتا تھا، اگر وہ مغربی تہذیب پر واقعی اپنی سیادت قائم کرلیتا اور اس پر قابو پانے کے بعد اس کو اعلیٰ انسانی و اسلامی مقاصد کے لئے استعمال کرتا اور اس آزاد خیال قائد کی طرح اس میں ترمیم و تصرف کرتا جو اپنے ارادہ کا مالک و مختار ہے، یا اس مجتہد عالم کی طرح جو اپنی عقلِ خداداد سے سوچتا ہے، وہ مشرق کی ان اسلامی اقوام کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ اور قابلِ صد احترام پیش رَو اور پیشوا بن جاتا، جو مشرق و مغرب کی اس زبردست کشمکش کا شکار ہیں، اور تہذیبِ جدید کے کھلے ہوئے چیلنج کا سامنا کررہی ہیں، اور جن کے نزدیک ترکی ہی وہ سب سے پہلا مسلمان ملک ہے جس کو مغرب و مشرق کی کشمکش کے اس معرکۂ خونین سے گزرنا پڑا اور مغربی تہذیب اور جدید فلسفۂ زندگی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا رو در رو سامنا کرنا پڑا۔
لیکن افسوس کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا جو کچھ ہوا وہ صرف یہ کہ ترکی نے مغربی تمدن
------------------------------
١؎ ایضاً ص: ۳۰، ۳۱