میں مبتلا رہا ہے، اور منبع قوت کے تعاون سے محروم۱؎، لیکن مصر کے لیے یہ ایک غیر طبعی صورتِ حال ہے، اس کی اسلامی روح اور اس کا دینی ضمیر یقیناً اس کے خلاف بغاوت کرے گا اور جس ملک کو ’’کنانۃ الاسلام‘‘ کہا گیا ہے، اور جس میں عالم عربی کی قیادت کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے، ایک نئی طاقت بن کر ابھرے گا۔
شام و عراق
فرانسیسی اور برطانوی اقتدار سے آزاد ہونے کے بعد سے مسلم عرب آبادی کی غالب اکثریت۲؎ کے یہ دونوں سرسبز و زرخیز ملک جو اپنی شاندار اسلامی و تہذیبی تاریخ رکھتے ہیں، اور جو علی الترتیب طویل مدت تک خلافتِ اسلامی کا مرکز رہ چکے ہیں، مختلف سیاسی ادوار اور جلد جلد ہونے والے خون آشام فوجی انقلابات سے گذرے، یہ دونوں مسلم عرب ملک مغرب کے گہرے ذہنی واخلاقی و معاشرتی اثرات کی جولان گاہ ہیں، جدید تعلیم یافتہ طبقہ سیاسی رہنماؤں اور اہلِ حکوم ت کا رجحان عرب نیشنلزم، نامذہبیت (سیکولرازم) وتجدد ومغربیت کی طرف ہوتا جارہا ہے، اگرچہ دونوں ملکوں میں عوام سیدھے سادے سچے مسلمان اور دین سے محبت رکھنے والے ہیں، بہت سی قدیم روایات دونوں جگہ قائم ہیں، خاصی بڑی تعداد میں ایسے جید علماء اور ممتاز فاضل موجود ہیں، جن کی نظیر دوسرے ملکوں میں ملنی مشکل ہے، لیکن روزبروز عام معاشرہ سے دین کی گرفت ڈھیلی ہوتی جارہی ہے، اور علماء اور اہلِ دین کا اقتدار رُوبہ زوال ہے، عورتوں میں آزادی اور بےپردگی عام ہوتی جارہی ہے،
------------------------------
۱؎ مصر کی موجودہ صورت حال کا یہ جائزہ مولوی واضح رشید ندوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء اور مدیر ’’الرائد‘‘ کے قلم سے ہے، جو انہوں نے مصنف کی فرمائش پر کتاب کے نئے ایڈیشن کے لیے لکھا۔
۲؎ شام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۹۰فیصدی اور عراق میں ۹۳فیصدی ہے۔