عرب کے ایک صاحبِ فکر مسلمان سے اس وسیع نظریہ اور اس عالمگیر پیغام کی زیادہ توقع تھی، وہ ہر طرح سے اس کا حقدار تھا کہ اس دعوت اور نظریہ کا علمبردار بن کر دنیا کے سامنے آئے اور انسانیت کی قیادت و رہنمائی کرے، اس لئے کہ اس نے ایک ایسے شجرِ سایہ دار کے نیچے پرورش پائی ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔ زيتونة لا شرقية و لا غربية
اخوان کی تحریک
مغربی تہذیب کا آنکھ سے آنکھ ملا کر مقابلہ، اس پر جرات مندانہ اور پر از اعتماد تنقید اور ایک داعی اور حملہ آور کی حیثیت سے اس کا سامنا کرنے کے لئے ایک مربوط اور ٹھوس کوشش، مغربی تہذیب کے مزاج اور اس کی ترکیب سے گہری واقفیت، اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات اور اس کے مسلکِ زندگی پر مضبوط عقیدہ اور داعیانہ جوش کی ضرورت تھی۔
اس کے لئے اس سیاسی رہنما کے موقف کے بجائے (جس کو سید جمال الدین افغانی نے اختیار کیا تھا) اور اس دفاعی پوزیشن کے بجائے جس میں شیخ محمد عبدہٗ نظر آتے ہیں، ایک دوسرے موقف کی ضرورت تھی۔
مصر میں الاخوان المسلمون کی تحریک۱؎ اگر اپنی صحیح اور طبعی رفتار سے آگے بڑھتی رہتی اور اس کے جھنڈے کے نیچے عالم اسلام کے مفکرین، ممتاز اہل قلم اور ماہرین فن جمع ہوجاتے ۲؎ تو اس
------------------------------
۱۔ اس تحریک کی تاریخ، اس کی اہمیت و وسعت اور اس کے بانی شیخ حسن البناء مرحوم کے حالات زندگی و کمالات کے لئے ملاحظہ ہو، ’’تحریک اخوان المسلمین‘‘ (ترجمہ: ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی)
۲۔ جن کا ایک نمونہ عبدالقادر عودہ شہید، سید قطب شہید، محمد الغزالی، ڈاکٹر سعید رمضان، ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی، محمد قطب اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی وغیرہ ہیں۔