قوم پرستی کا ساتھ دے سکے، نیز عقائد و اخلاقیات میں میں محدود رہ کر ان کی آئین سازی اور ان کے سیاسی مصالح و مسائل میں مزاحم نہ ہو، اس طرح ایک لبنانی عرب مبصر کی یہ رائے اور تبصرہ کچھ زیادہ مبالغہ آمیز اور حقیقت سے دور نہیں جس کا اس نے امریکہ کے مشہور رسالہ ( MUSLIM WORLD ) میں حال میں اظہار کیا ہے، ڈاکٹر سالم ( SALEM ) اپنے مضمون ( NATIONALISM AND ISLAM ) میں لکھتا ہے:-
’’ اس مقصد کے لئے ’’ قومیت ‘‘ نے کامل اتحاد اسلام سے پیدا کیا ہے، لیکن جس اسلام کو ’’ قومیت ‘‘ نے اپنایا ہے یہ وہ قدیم خشک اسلام نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل تبدیل شدہ جدید اسلام ہے جدیدیت کے اس تحفہ میں جس پر اسلام کا صرف غلاف چڑھا ہوا ہے، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن کے نام بیشک لئے جاتے ہیں، مگر اس لئے کہ ہر اس چیز کے لئے سند جواز ہاتھ آ جائے جسے قوم پرور اختیار کرنا چاہیں، عرب قومیت کو عوام میں مقبولیت اسی اسلام سے لپٹے رہنے سے حاصل ہوتی ہے، ایک حد تک یوں کہئے کہ عرب قومیت ایک عرب قوم کی تزکیل نو کے لئے اسلام کے نام سے خوب نفع حاصل کر رہی ہے، عرب قوم پرور اسلامیت اور عربیت کو ملا دینے سے پوری جیت حاصل کر رہے ہیں۔‘‘۱؎
اشتراکیت اور اس کے حلیف
الجزائر کے سابق صدر بومدین اپنے معاصر عرب سربراہوں میں اشتراکیت دوستی اور سیاسی امور میں سوویٹ روس سے مشورہ کرنے کے سلسلے میں پیش پیش رہے ہیں اور جب ۶۷ ء
------------------------------
۱؎ رسالہ مسلم ورلڈ (MUSLIM WORLD) مضمون ’’ نیشنلزم اینڈ اسلام ‘‘ (NATIONALISM AND ISLAM) ۲۷ اشاعت اکتوبر ۱۹۶۲ ء ترجمہ ماخوذ از ’’ صدق جدید ‘‘ ۳۰ نومبر ۱۹۶۲ ء