نگاہ بلند، سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لئے ۱؎
پاکستان کی جماعت اسلامی
جماعت اسلامی جس نے پاکستان میں اسلامی نظام اور اسلامی قانون کے نفاذ کا پرزور مطالبہ کیا تھا، بہت کچھ اس توقع کو پورا کرسکتی تھی، اور اس خلا کو پرکرنے کے لئے سب سے زیادہ اس پر نظر پڑتی تھی، اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ۲؎ میں متعدد ایسی صفات جمع تھیں جو ان کو ذہنی قیادت کے منصب بلند پر پہونچا سکتی تھیں، ان کو قدرت کی طرف سے ایک سلجھا ہوا دماغ، پرزور قلم اور ایک طاقتور اسلوب ملا تھا، وہ مغرب کے جدید مکاتبِ فکر اور فلسفوں سے واقف تھے، دوسری طرف ان کو اسلام کی تعلیمات اور ان کی زندگی کی صلاحیت پر عقیدہ تھا، مغربی تہذیب و افکار کی تنقید ۳؎ اور اسلامی تعلیمات کی تشریح و ترجمانی میں ان کی
------------------------------
۱۔ اوپر کی تحریر ۱۹۷۰ء کے آخر کی ہے جب پاکستان میں جنرل محمد ایوب خاں کا دور حکومت و قیادت تھا، اس کے بعد اس اہم اسلامی مملکت میں اہم اور فیصلہ کن تبدیلیاں وقوع میں آئیں، جمہوریت کے شدید مطالبہ کے نتیجہ میں ایوب خاں کو ہٹنا پڑا، پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے موسوم ہوا اور مجیب الرحمن اس کے سربراہ مقرر ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مظالم اور بدعنوانیوں کا سلسلہ شروع ہوا، انتخابات کرائے گئے، اور انتخابات میں سنگین بدعنوانیوں کے الزامات کے بعد متحدہ قومی محاذ نےایک نئی تحریک شروع کی، عوام نے عظیم قربانیاں دیں، بالآخر جنرل محمد ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹا کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی اور پاکستان کا ایک نیا دور شروع ہوا، اسلامی قوانین کا نفاذ ہوا، عدلیہ کو مکمل آزادی دی گئی اور معاشرہ اور حکومت میں متعدد خوش آئند تبدیلیاں عمل میں آئیں، جن کا سلسلہ جاری ہے اور جن سے اسلام کے بہی خواہوں کو بڑی امیدیں ہیں۔
۲۔ افسوس ہے کہ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو مولانا نے اس عالم فانی سے رحلت کی، رحمہ اللہ وغفرلہ۔
۳۔ مغربی تہذیب اور اس کی اساس پر عالمانہ تنقید میں اس نصف صدی میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے مجموعہ مضامین ’’تنقیحات‘‘ کو اولین مقام حاصل ہے۔