کی شدید تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں گی، اس لئے کہ یہ رویہ اور موقف اس فطرتِ انسانی کے بالکل خلاف ہے، جو ہمیشہ آگے کی طرف دیکھتی ہے، جو ہر نئی چیز کی طلب گار ہوتی ہے، اور کسی حال میں بھی اس کی سیری نہیں ہوتی، عزت و سربلندی، قوت و طاقت اور تجدید و احیاء کی محبت اس کی رگ و پے میں ہے، وہ ہر لحظہ ایک نئی منزل کی تلاش میں اور نئی ترقی کی تمنا میں نظر آتی ہے، ایک نہ تھکنے والی آرزو اور یاس نا آشنا امید و حوصلہ مندی۔
اسی کے ساتھ یہ موقف قانون تکوینی اور اس کائنات کے مزاج کے بھی سراسر خلاف ہے اگر کوئی ملک زبردستی اس خلافِ فطرت موقف کو اختیار کرنا چاہے گا تو یہ تہذیب اس کے گھروں میں اور اس کے خاندانوں میں اس طرح داخل ہوجائے گی، جس طرح سیلاب سے گھرے ہوئے کسی گاؤں یا شہر میں پانی بغیر کسی اطلاع اور آگاہی کے داخل ہوجاتا ہے، اور ہر طرف سے اس کو گھیر لیتا ہے۔
علیحدگی پسندی اور کنارہ کشی کا نتیجہ!
اگر کبھی عالمِ اسلام کا کوئی ملک (اپنی زندگی کے کسی دور میں) تہذیبِ جدید سے محفوظ رہا اور اس کا دامن اس کے خیرو شر کسی سے آلودہ نہ ہوسکا اور وہ اس تہذیب کے مفید علوم اور وسائل تک سے دست کش ہوکر اپنی محدود دنیا میں محصور رہا تو یہ وقفہ زیادہ طویل عرصہ تک کبھی قائم نہ رہ سکا اور اس تہذیب وتمدن کی لہریں (جو دلوں کی گہرائیوں اور معاشرہ کی جڑوں تک میں سرایت کرجاتی ہیں، اور سارے اخلاقی اصول اور قدریں اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں) برابر اس سے ٹکراتی رہیں اور اس کے سکون اور خوابِ راحت کو برہم کرتی رہیں۔
ہر ذی عقل شخص جو اس مغربی تہذیب کی تاثیر و تسخیر اور قوت و وسعت سے واقف ہے، اسی کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مشرقی ممالک روحانی اور مادی حیثیت سے کتنے کمزور ہوچکے ہیں