اندازہ ہوگیا کہ یہ سارا کھیل ایک خارجی طاقت (سوویت روس) اور نازک بین الاقوامی حالات کے بھروسہ پر کھیلا گیا تھا، جو وقت پر کام نہ آیا، اس وقت عالمِ عربی کو جس مایوسی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا، بیت المقدس کے نکل جانے کی وجہ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کو جو روحانی صدمہ اور ذلت کا احساس ہوا اور شریک جنگ عرب طاقتوں پر جو بے بسی اور بے چارگی کا عالم طاری ہے، اس کی مثال تاتاریوں کے ہاتھوں عالم اسلام کی ذلت اور سقوط بغداد کے واقعہ کے بعد اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی، اس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ عربوں کی قسمت اسلام کے ساتھ وابستہ کردی گئی ہے، اور ان ممالک میں کوئی ایسی تحریک اور کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی جس کی بنیاد خالص مادہ پرستی اور اسلام سے اعراض پر ہو، اس سے مشہور عرب مؤرخ فلسلفی ابن خلدون کی اس رائے کی بھی تصدیق ہوئی کہ عربوں میں دینی رشتہ کے سوا کوئی رشتہ اتحاد اور قوت نہیں پیدا کرسکتا۔
مصر انور السادات کے عہد میں
۷۰ء میں جمال عبدالناصر کا انتقال ہوا، ٦۷ء کی شکست کے نتیجہ میں مصر شدید مالی، سیاسی اور نفسیاتی اضطراب میں مبتلا تھا، مصری قوم شکست خوردگی کا شکار تھی۔
انور السادات جمال عبدالناصر کے جانشین ہوئے، انور السادات دوسرے لیڈروں کے مقابلہ میں جو قیادت کے امیدوار تھے، اعتدال پسند اور دین کے بارے میں ان کے رجحانات غیرجارحانہ تھے، ان کے مقابلہ میں جو امیدوار تھے، وہ بائیں بازو کے رجحانات کے حامل تھے، جن کی پشت پناہی روس کررہا تھا، انور السادات کے انتخاب میں مغربی طاقتوں کا بھی ہاتھ تھا۔
اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد انور السادات نے جمال عبدالناصر مخالف عناصر کی