مذہبِ نیچری سے جوڑا ہے، اور باوجود ان کے باربار یہ کہنے کے کہ وہ اسلام کا دفاع کررہے ہیں، انہوں نے ان پر الحاد کا الزام لگایا،١؎ سرسید کا کہنا یہ تھا کہ ان کی کوشش یہ ہے کہ موجودہ مسلمانوں کے لئے ایک ایسا طریقہ پیدا کریں جس میں وہ اپنے اسلام پر قائم رہتے ہوئے اس جدید زندگی کو اپنا سکین جو علوم طبعیہ کی ترقی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔‘‘ ۲
یہ انتہاپسندانہ مادی رجحان، عقل انسانی کی تقدیس اور اس کے حدود اور دائرہ عمل کی ضرورت سے زائد توسیع، خدا کی قدرت ومشیت کو قوانین فطرت اور اسباب ظاہری کا پابند سمجھنا، قرآن کی جسارت کے ساتھ تاویل و تشریح، وہ چیزیں تھیں، جنہوں نے ایک نئے فکری انتشار اور بے راہ روی اور بے باکی کا دروازہ کھول دیا اور آگے چل کر لوگوں نے اس سے ایسا غلط فائدہ اٹھایا کہ دین کی تشریح اور قرآن کی تفسیر بازیچۂ اطفال بن گئی۔۳
سرسید نقطۂ نظر کے کمزور پہلو
سرسید کے تعلیمی و اصلاحی منصوبہ کے دو پہلو ایسے تھے، جن کی وجہ سے وہ عالمِ اسلام کے لئے کوئی ایسی انقلاب انگیز دعوت اور ایجابی و تعمیری قدم ثابت نہ ہوسکا جو عقیدہ و ایمان اور رسالتِ محمدی پر قائم ہونے والی سوسائٹی کے حالات کے
------------------------------
۱۔ العروۃ الوثقیٰ (جس کے نگراں و روحِ رواں سید جمال الدین افغانی تھے) کے ان مضامین میں جو سرسید کی تردید میں لکھے گئے ہیں، کسی قدر غلط فہمی اور غلو شامل ہے جس کا سبب غالباً زبان سے ناواقفیت اور سرسید کی عام شہرت ہے،(ندوی)
۲۔ ایضاً ص: ۱۵، ۱۶
۳۔ نمونہ کے طور پر ملاحظہ ہو مولوی محمدعلی لاہوری کی تفسیر بیان القرآن اور انگریزی ترجمہ قرآن کے نوٹس۔