حرف آخر
یہ بات کتنی ہی تلخ اور ناخوشگوار ہو، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ موجودہ عالم اسلامی مجموعی طور پر خود شناسی اور خود اعتمادی کی دولت سے محروم ہے، اس وسیع (اسلامی) دنیا میں جو ملک آزاد ہیں، (خواہ وہ صدیوں سے آزاد چلے آ رہے ہوں یا انہوں نے ماضی قریب میں آزادی حاصل کی ہو) وہ بھی ذہنی اور علمی حیثیت سے مغرب کے اسی طرح سے غلام ہیں، جس طرح ایک ایسا پسماندہ ملک غلام ہوتا ہے جس نے غلامی ہی کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ہوش سنبھالا ہے۔ بعض اوقات ان ملکوں کے سربراہ سیاسی میدان میں قابل تعریف اور بعض اوقات خطرناک حد تک جرات و ہمت کی بات کرتے ہیں، اور بعض اوقات مہم جوئی اور اپنے ملک کی بازی تک لگا دینے سے باز نہیں آتے، لیکن فکری، تہذیبی اور تعلیمی میدان میں ان سے اتنی بھی خود اعتمادی، انتخاب کی آزادی اور تنقیدی صلاحیت کا اظہار نہیں ہوتا، جتنی کہ کسی ایک عاقل بالغ انسان سے توقع کی جاتی ہے۔ حالانکہ فلسفہ تاریخ کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ فکری، تہذیبی اور تعلیمی غلامی، سیاسی غلامی سے زیادی خطرناک، عمیق اور مستحکم ہوتی ہے اور اس کی موجودگی میں ایک حقیقت پسند