اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اسلامی ادارہ خالص علمی و ادبی رجحان کے ساتھ آگے بڑھا اور مغربی تمدن کی تقلید کا ذوق اور انگریزی ادبیات میں کمال حاصل کرنے کا شوق اس کے ذہین اور حوصلہ مند طلبہ پر غالب رہا، اس نے انگریزی کے بعض اچھے مقرر، صاحبِ قلم، محکموں کے افسر اور انتظامیہ کے عہدہ دار پیدا کئے، لیکن قدرتی طور پر ریاضی، طبعیات کیمسٹری، ٹکنالوجی اور صنعتی علوم میں جن کی اسلامی ہند کو سخت ضرورت تھی، ممتاز شخصیتیں اور غیر معمولی افراد پیدا نہ ہوسکے، اور اس کی وجہ سے اس کا دائرہ اثر سرکاری ملازمتوں اور معمولی انتظامی اداروں تک محدود رہا۔
اس تحریک کے نتائج اور اس کی خدمات!
اس ساری تفصیل و تنقید کے باوجود اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرسید احمد خاں ایسی طاقتور شخصیت کے مالک تھے جس سے زیادہ طاقتور شخصیت اس دور کے قائدین میں کسی کی نظر نہیں آتی، انہوں نے ایک بڑے وسیع محاذ پر جنگ جاری رکھی، جس تحریک کی انہوں نے قیادت کی اس کو ایسی کامیابی نصیب ہوئی اور اس نے مسلمانوں کی نئی نسل کو اتنا متاثر کیا جتنا کسی دوسری تحریک نے نہیں کیا تھا، سرسید احمد خاں کی طاقتور شخصیت کے اثر کا ہندوستاں کی اسلامی سوسائٹی میں دائرہ بہت وسیع ہے، انہوں نے ادب و زبان، طریقِ فکر و اسالیب بیان سب کو کم و بیش متاثر کیا، اور ایک ایسے ادبی و فکری دبستان کی بنیاد ڈالی جس کے اندر بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔
اس عظیم تعلیمی تحریک نے جس کی قیادت سرسید احمد خاں نے پوری نصف صدی تک خلوص اور قابلیت کے ساتھ کی تھی، بعض ناقابلِ انکار نتائج پیدا کئے، اس نے