زیادہ ہیں، اور جہاں نظام تعلیم کا سررشتہ صحیح الخیال و درد مند مسلمان زعماء و قائدین کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، اور اس کے بازیاب کی جلد امید نہیں، وہاں یہ اقامت خانے ہی زیر تعلیم مسلمان نوجوانوں کی اخلاقی حفاظت اور ذہنی و دینی تربیت کا سامان کر سکتے ہیں، اور بہت سی سعید روحوں کو فاسد و مفسد ماحول اور مسخ کرنے والے نظام تعلیم کی سمیت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ (۱)
ان اسلامی اقامت خانوں کی مسلم ممالک کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی ضرورت ہے، جہاں وہ مسلمان نوجوان بڑی تعداد میں تعلیم پاتے ہیں، جو ذہانت و قوت عمل میں ملک کا سرمایہ اور جوہر ہیں اور جن کےلئے بالعموم (اپنی ذہنی صلاحیتوں اور مغربی علوم والسنہ و سیاست سے واقفیت کی بنا پر) گویا ملسم ممالک کی قیادت اور کم سے کم ان کی کلیدی جگہیں مقدر ہوچکی ہیں، اگر ان مرکزوں میں ان کے رحجانات کی اصلاح اور اسلامی ذہن کی تعمیر کا سامان کیا جا سکے، اور اسلام اور اس کے مستقبل پر ان کا اعتماد بحال کیا جاسکے تو اس خاموش کام کے ذریعہ ان مسلم ممالک میں خاموسی کے ساتھ وہ اسلامی انقلاب لایا جا سکتا ہے، جن کی قیادت دیر یا سویر یہ نوجوان سنبھالنے والے ہیں، اور یہ طریقہ ان تمام طریقوں سے زیادہ آسان اور محفوظ معلوم ہوتا ہے، جس کا عرصہ سے براہ راست ان ممالک میں تجربہ کیا جا رہا ہے۔
مغربی مستشرقین اور ان کی تحقیقات و افکار کا اثر
موجودہ عالم اسلام کے رہنما و حکمراں طبقہ کے (جس نے عام طور پر اعلٰی مغربی تعلیم گاہوں میں
------------------------------
۱۔ اسلامی اقامت خانوں کے قیام کی تحریک سب سے پہلے مولانا سید مناظر احسن صاحب گیلانی رحمہ اللہ نے اٹھائی، ان کے بعد اس تحریک کے سب سے بڑی داعی ان کے رفیق اور ہمارے مخدوم مولانا عبد الباری ندوی مرحوم تھے، جو اس موضوع پر برابر مضامین لکھتے اور درد مند و فعال مسلمانوں کو توجہ دلاتے رہتے تھے۔