ملی جلی تہذٰیب
یہ تہذیب اپنی وسیع شکل میں عقائد وخیالات، فکری نظاموں، سیاسی و اقتصادی فلسفوں اجتماعی طبعی اور عمرانی علوم نیز ان مخصوص تجربوں کا عجیب و غریب مجموعہ تھی، جو مغربی اقوام کو اپنے ارتقا کے طویل سفر کے مختلف مراحل میں پیش آئے تھے، یہ تہذیب عام طور پر انسانی اور خاص طور پر طبعی، میکانکی اور ریاضی علوم کی ترقی کا ایک ناگزیر مرحلہ اور مفکرین اور ماہرین طبعیات کی مسلسل کوششوں اور تجربات کا نچوڑ اور خلاصہ تھا، اس اعتبار سے وہ مختلف اجزاء اور عناصر کا ایک ایسا مجموعہ تھا، جن کے متعلق یکساں رائے قائم نہیں کی جاسکتی تھی۔
اس تہذیبی مجموعہ میں ناقص اجزاء بھی تھے، اور مکمل بھی، مضر بھی ، اور مفید بھی، اور غلط بھی، اس میں علم کے ان بدیہیات کے ساتھ جو ہر شبہہ سے بالا تر ہیں، ایسے غلط قیاسات، خیالات و افکار اور بزعم خود ایسے فیصلے شامل تھے، جن میں بحث و مباحثہ اور غور و خوض کا نچوڑ تھے، اور ایسے بھی تھے، جن کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت تھا، وہ اجزاء اور عناصر بھی تھے، جو کسی خاص ملک اور قوم کے ساتھ مخصوص نہیں، مثلا تجربی علوم، اور وہ بھی جن میں مغربی تہذیب کی مقامی روح پوری طرح نمایاں تھی، اور مغربی ماحول اور معاشرہ کا ان پر گہرا اثر تھا، اور وہ ان تاریخی انقلابات اور حوادث کا نتیجہ تھے، جن سے مغربی اقوام کو اپنے دائرہ عمل اور مرکز میں گذرنا پڑا، وہ بھی تھے، جن کا دین و عقائد سے گہرا تعلق تھا، اور وہ اجزاء بھی تھے، جن کو سرے سے مذہب سے کوئی سروکار نہ تھا۔
اس تہذیبی مرکب نے اس مسئلہ کی پچیدگی اور اہمیت کو بہت بڑھا دیا ہے، اور عالم اسلام کو ایک نازک اور دشوار اپوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے، اور اس کے رہنماؤں اور مفکرین کے ذہانت کے لئے ایک