اور ذوق اور طریقہ فکر میں شریک ہونے اور حصہ لینے کی دعوت دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں:۔
’’ہمیں اہل یورپ کے طریقہ پر چلنا چاہیے اور ان کی سیرت و عادات اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کے برابر ہوسکیں اور تہذیب کے خیرو شر، تلخ و شیریں، پسندیدہ و ناپسندیدہ ہر چیز میں ان کے رفیقِ کار اور شریکِ حال ہوسکیں۔‘‘ ۱؎
’’ہم ایک یورپین کو باور کرادیں کہ اشیاء کو ہم اسی نظر سے دیکھتے ہیں، جس نظر سے ایک یورپین دیکھتا ہے، ان کی وہی قدرو قیمت ہماری نظر میں ہے، جو اس کی نظر میں ہے، ان کے متعلق وہی رائے قائم کرتے ہیں جو ایک مغربی کرتا ہے۔‘‘ ۲؎
پست ذہنی سطح
تقلید و نقالی اور مغرب میں فنا اور تحلیل ہوجانے کی بے باکانہ دعوت اور بلند روحانی و اخلاقی ذمہ داریوں، فرائض اور مقاصد کو جغرافیہ، تاریخ اور قوموں کے مزاج و فکر کے محدود پیمانہ پر اور قدیم تاریخ کی روشنی میں جانچنے کی کوشش، ایک ایسی پست سطح ہے، جس سے ہم طہٰ حسین جیسے عالم اور مفکر ادیب کو بہت بلند وبالا سمجھتے تھے، مشرق کے غیر اسلامی ملکوں کے بعض مشرقی رہنما اور مفکر تک اس سطح سے بلند نظر آتے ہیں، اور انہوں نے ’’انسانیت‘‘ ’’آفاقیت‘‘ اور اخلاقی و روحانی اقدار کی (جو جغرافیائی حدود، قدیم و جدید کی تفریق اور تہذیبی علاقوں اور احاطوں کی پابندیوں سے آزاد ہیں) بہت بلند آہنگی کے ساتھ دعوت دی، اور ان تمام جامد و محدود روابط کا انکار کیا جو ایک انسانی خاندان کو ملکوں اور نسلون اور تہذیبی علاقوں یا مغرب اور مشرق میں تقسیم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
------------------------------
۱۔ ص: ۴۱
۲۔ ص: ۴۴