اسلام كے نام پر اپيل كرتی ہو، ایمان اور اسلامی شجاعت پر بھروسہ ركھتی ہو، دوسری طرف عربی قومیت، اشتراكیت اور كمیونزم كی تحریكیں بھی قدرتی طور پر اس خلا كو پر كرنے سے قاصر رہیں اور عربوں میں اسلامی جوش پیدا كرنےا اور منتشر عالم عربی كو متحد و یكجا كرنے میں ناكام رہیں تو شكست كا حادثہ فاجعہ پیش آگیا جس نے مشرق و مغرب كے ہر مسلمان كا سر نیچا كردیا اور عربوں كی پیشانی پر ایك ایسا داغ لگایا، اور ایسی تلخ یاد چھوڑی جس كو بھلانے كے لیے یہ ضروری ہے كہ عربوں كو اس زبردست شكست سے كہیں پڑھ كر فتح حاصل ہو۔
گھاٹے كا سودا
مصر كو جو مدت دراز سےعرب دنیا كی علمی، فكری، ادبی اور بڑی حد تك دینی رہنمائی بھی كرتا رہا ہے، مكمل نا مذہبیت، غالی عربی قوم پرستی اور پُر جوش اور پُر عزم اشتراكیت كے خطوط پر لے چلنے كا خالص مادی و سیاسی نقطہ نظر سے كوئی جواز ہو سكتا تھا، اگر مصر كے رہنماؤں (اور زیادہ صحیح الفاظ میں مصر كے تنہا رہنما جمال عبد الناصر كو) عربوں كے لیے سر بلندی كا مقام حاصل كرنے اور مصر كی عزت كو چار چاند لگأنے میں وہ كامیابی حاصل ہوتی جو كمال اتاترك كو نازك ترین گھڑی اور نا مساعد حالات میں تركی كی عزت كو بچانے كی وجہ سے تركی میں حاصل ہوئی تھی، یہ ایك طبقہ كے لیے ان عظیم قربیانوں كی قیمت ہوسكتی تھی جو مصر كو اس دور قیادت میں پے در پے پیش كرنی پڑيں اس كو اپنے ان بہت سے لائق فرزندوں سے محروم ہونا پڑا (جو قومی، سیاسی علمی اور دینی حیثیت سے اس كے لیے بہت مفید ہو سكتے تھے) اس كو اپنے اسلامی جذبات اور اخوتِ اسلامی كے اس احساس میں جو قدیم زمانے میں مصر كا شعار رہا ہے، بہت نیچی سطح پر اترنا پڑا بلكہ اس سے دست بردار ہونا پڑا اس كو سخت معاشی مشكلات سے گذرنا پڑا اس كو پریس اور اظہار خیال