اس کو اپنے شعرا وادباء، فلاسفہ ومفکرین اور صوفیائے کرام کی بناء پر جن کا شمار مشکل ہے، اسلامی مشرق کا یونان کہنا بجا ہوگا، وہاں بعض غالی مذہبی خیالات کے باوجود ایران کی پچھلی تاریخ کا قدرتی نتیجہ ہے، احیاء اسلام اور اتحاد اسلامی کی تحریک پائی جاتی ہے، اور وہاں حوصلہ آفریں اور روح پرور اسلامی ادب روز افزوں مقبولیت حاصل کررہا ہے۔
ایران کا اسلامی انقلاب
ایران میں شاہ ایران کے خلاف سیاسی جدوجہد کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو اس کا اصل سبب شاہ ایران کا ایرانی عوام کے مذہبی اور ثقافتی احساسات اور تقاضوں کے خلاف جارحانہ رویہ معلوم ہوگا، جس نے ان کی ساری خدمات اور فوجی، ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا، ایران کے واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کے عوام کے جذبات کو مجروح کرکے کوئی قیادت چاہے ملک کی ترقی کے سلسلہ میں اس کی کتنی ہی خدمات ہوں مقبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔
شاہ ایران نے اپنے آخری دور میں ایران کو فوجی لحاظ سے اتنا مضبوط کردیا تھا کہ وہ اس علاقہ میں فیصلہ کن پوزیشن حاصل کرنے لگا تھا، اس کے علاوہ شاہ ایران سیاسی سوجھ بوجھ سے بین الاقوامی مسائل میں موثر رول ادا کررہے تھے، ملک خوشحالی کے راستہ پر گامزن تھا، تمدنی لحاظ سے ایران کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں تھا، تعلیم کے اعتبار سے اس علاقہ میں ایران بہت سے ملکوں سے آگے تھا، طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہی تھی، ایسی صورت میں ملک کو کسی حال میں اجتماعی، یا اقتصادی لحاظ سے پس ماندہ نہیں کہا جاسکتا تھا، لہٰذا عوامی بیزاری کا سبب اقتصادی یا سیاسی پسماندگی