اقوام عالم کی قیادت اور تہذیب حاضر کی رہنمائی میں مرکزی مقام عطا کرسکتی تھی۔
اکبر الہ آبادی
سرسید کے تقلیدی ذہن اور رجحان کا مقابلہ ایک ایسے معاصر کے حصہ میں آیا جس نے قدیم طرز پر تربیت پائی تھی، اور جدید سے واقف تھا، اس نے بغیر کسی رو رعایت کے اس پر نشتر زنی کی، یہ اکبر الہ آبادی ۱؎ تھے، انہوں نے اپنے مخصوص و معروف مزاحیہ انداز اور بلیغ اور طاقتور اسلوب میں نئی تعلیم پانے والے نوجوانوں پر (جو اپنے ہی لختِ جگر تھے) تنقید کا ناخوشگوار لیکن ضروری فرض انجام دیا، اور آخر دم تک اسی کو اپنے شعر و سخن کا موضوع بنائے رکھا، انہوں نے سرسید کے خلوص کے اعتراف کے ساتھ ان کی تعلیمی سیاست، تقلید مغرب کی پرجوش دعوت اور کالج کی مغربی زندگی اور فضا پر بے باکانہ مگر لطیف انداز میں تنقید کی جس میں اس کی مغربی اندھی تقلید، عقائد میں کمزوری، دین میں ڈھیلے پن، نوجوانوں کی تن آسانی، ان کے بلند معیار زندگی، فیشن پرستی، اہل دین سے وحشت ملازمتوں پر انحصار، قدیم مشرقی تہذیب اور اس کی روایات اور خصوصیات سے بغاوت، مغربی معاشرہ میں فنائیت اور خالص مادی طرزِ فکر کو خوب نمایاں کیا، انہوں نے اپنی سحر انگیز شاعری اور فن کار قلم سے نئی نسل کی ایسی بولتی ہوئی تصویر کھینچ کر رکھ دی جس میں سارے خطوط وانداز ایک ایک کرکے ابھر آئے، ان کے کلام کو ہندوستان کے مختلف طبقوں اور مکاتبِ خیال میں قبول عام حاصل ہوا، اہل ذوق اور نوجوانوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کو اس کثرت سے سنا اور پڑھا گیا کہ اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔
------------------------------
۱۔ اکبر الہ آبادی کی شاعری اور پیغام پر سب سے بہترکتاب مولانا عبدالماجد دریابادی کے مضامین کا مجموعہ ’’اکبرنامہ یا اکبر میری نظر میں‘‘ ہے۔