یہ عالمِ اسلام یاکسی اسلامی ملک کے وہ عالی دماغ اور حوصلہ مند رہنما کا نمونہ ہے جو عالمِ اسلام میں (جہاں ہر طرح کے زعماء و قائدین کثرت کے ساتھ موجود ہیں) ابھی تک ناپید ہے، اور ایک حسین و دل کش خواب اور تخیل کی حیثیت رکھتا ہے، یہ وہ بلند قامت دیوپیکر ہستی ہے، جس کے پہلو میں اگر عالم اسلام کے فروما یہ نقّال و مقلّد و غاشیہ بردار رہنما کھڑے کردیئے جائیں تو نہایت حقیر انسان معلوم ہوں اور فکرو نظر، عزم و حوصلہ اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے بُونے اور بالشتئے (PYGMIES) نظر آئیں، مشرق کے وہ زعماء و قائدین جو اس نصف صدی کے عرصہ میں سامنے آئے ہیں کوئی اس بلند معیار پر پورا نہیں اترتا اور کوئی اس ضرورت کو پورا نہیں کرتا جو عصرِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے، اقبال نے صحیح کہا ہےکہ؎
نہ مصطفٰے، نہ رضا شاہ میں ہے اس کی نمود
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
مسلم ممالک کا کردار اور تاریخ جدید کا سب سے بڑا کارنامہ
عصر جدید میں جبکہ مغربی تہذیب اپنے ارتقا کے آخری نقطہ پر پہونچ گئی ہے، اور مسلم ممالک اپنے مخصوص حالات اور تاریخ کی بنا پر اس میں مساویانہ حصہ نہیں لے سکتے اور اگر بالفرض ایسا ممکن ہو تو ان کے لئے اپنے عقیدہ، مسلکِ زندگی، مقاصد، اور مخصوص نوعیت کی بنا پر ایسا کرنا ممکن اور جائز بھی نہیں، یہ ان کی ملّی موت اور اجتماعی خود کشی کے مرادف ہے، اس حالت میں تقلید و پیروی اور انکار و سلبیت کے درمیان ایک محفوظ، بلند و باعزت راہ ہے، یہ نہ صرف ان ممالک کےمنصب ومقام کے شایانِ شان ہے،