"اسرائیل میں اعلیٰ تعلیم کا مقصد اصلی یہودی عقیدہ کی پرورش و ترقی اور اس سے وفاداری کا جذبہ پیدا کرنا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے لئےپروپیگنڈہ کرنے اور اس کے لئے نئے نئے دوست حاصل کرنے کا فن سکھانا ہے، اس مضمون میں اس کی حیرت انگیز تفصیلات و اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں کہ کس طرح اسرائیل عبرانی زبان کے احیاء و ترقی، اور اس کی یونیورسٹیوں کی مالی امداد و تقویت کے لئے بے دریغ رقوم صرف کرتا ہے۔"
اس دو عملہ پالیسی سے واقف ہونے کے بعد جو غیر مسلم دانشوروں نے اپنے ممالک و اقوام اور مسلم ممالک و اقوام کے بارے میں اختیار کر رکھی ہے، اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کس سادہ لوحی کے ساتھ مسلم ممالک کے رہنما و دانشورنا مذہبیت اور "روشن خیالی" کے منافقانہ پروپگنڈہ کا شکار ہوگئے ہیں، غالباً ان یہودی اور مسیحی دانشوروں، مستشرقین اہل قلم اور صحافیوں کو بھی اس کا اندازہ نہ تھا کہ مسلم زعماء اور دانشور اس آسانی کے ساتھ اور اس قدر جلد ان کی اس تلقین پر ایمان لے آئیں گے اور اپنے اپنے ملک میں اس کے پرجوش داعی بن جائیں گے، اور ان سے یہ روشن حقائق مخفی رہیں گے، جیسا کہ عملی تجربہ نے ثابت کیا، دنیا کی فکری اور تمدنی تاریخ میں قیادت کے ذہنی دیوالیہ پن اور فریب خوردگی کی ایسی کم مثالیں ملیں گے، جیس مسلم قیادت نے اس بیسویں صدی میں پیش کی۔
غریب مسلم ممالک کی شاہ خرچی
مسلم ممالک کی معاشی حالت بالعموم کمزور اور متزلزل ہے، وہ دوسرے ممالک کے دست نگر اور ضروریات زندگی تک میں ان کے محتاج ہیں، خاص طور پر ان ممالک کے