رکھتا تھا کہ وہ ایک ایسا میدان بنتا جس میں ایک طرف وہ سائنٹفک علوم اور جدید وسائل ہوتے جو یورپ نے اپنی طویل و مسلسل جدوجہد سے حاصل کئے ہیں، اور دوسری طرف علم ویقین اور کامیاب و پاکیزہ زندگی کی وہ صالح بنیادیں (جو اسلامی مشرق کا قیمتی سرمایہ ہیں) اور وہ نیک خواہشات اور محرکات ہوتے جو صرف مضبوط عقیدہ اور ایمان و محبت سے لبریز دل میں پیدا ہوسکتے ہیں، مصر کو اس دولت کا وافر حصہ ملا تھا، اور وہ عربی زبان وادب اور دینی علوم میں اپنی خاص اہمیت، نشرو اشاعت کے وسائل کی فراوانی، ازہر جیسے ادارہ کی موجودگی (جو عالم اسلام کا سب سے بڑا دینی و ثقافتی مرکز ہے) اور اپنے ذہن کی فطری لچک اور ثقافتی لین دین میں اپنی مہارت اور قابلیت کی وجہ سے اس دولت کی تقسیم اور اس میں اضافہ وتوسیع کی بڑی صلاحیت رکھتا تھا، وہ عالمِ اسلام اور مشرقی ممالک اور مغرب کے درمیان آزادانہ، شریفانہ خوددارانہ اور مساویانہ طور پر افادہ واستفادہ اور دادوستد (EXCHANGE) کی کامیاب اور پاکیزہ مثال قائم کرسکتا تھا، یہ ایک ایسا تبادلہ ہوتا جس میں نہ کسی کا نقصان ہوتا اور نہ ناپ تول میں کوئی کمی ہوتی۔
ایک نئی نہر سویز کی ضرورت
مصر ایک ایسی نہر بنا سکتا تھا جو اقوام عالم کے لئے نہر سویز سے کہیں زیادہ مفید اور انسانیت کے مستقبل اور دنیا کی تاریخ کے لئے اس سے ہزار درجہ مؤثر ثابت ہوسکتی تھی، یہ مشرق و مغرب کے درمیان صحیح مساویانہ اور متوازن تعارف وتبادلہ کی وہ نہر (CHANNEL) تھی، جو طبعی و صنعتی علوم میں پسماندہ مشرق کو ترقی یافتہ مغرب سے، سرگشتہ و حیران مغرب کو (جو اخلاق و روحانیت میں تہی دامن اور مایوسی و بدگمانی اور خودکشی کی راہ پر گامزن ہے) اس مشرق سے