دینی رہنمائی کا نازک کام
اس افسوسناک صورتحال پر جو اس وقت پاکستان میں درپیش ہے بہت کچھ قابو پایا جاسکتا تھا، یا کم سے کم اس کے اثر کو ہلکا کیا جاسکتا تھا، اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور حکومتی حلقہ میں اسلامی فکر اور دعوتِ اسلامی کو زیادہ بڑی تعداد میں مؤید وحامی مل سکتے تھے، نیز قدیم و جدید طبقہ کے درمیان جو وسیع خلیج پڑ گئی ہے، اس کو بہت مختصر کیا جاسکتا تھا، اور دونوں طبقے مل کر اس عظیم تجربہ کو کامیاب بنا سکتے تھے، جس کے لئے پاکستان وجود میں آیا تھا، اگر فکر اسلامی کے علمبردار اپنی زیادہ صلاحیت اور ہوش مندی کا ثبوت دیتے اور ملک کے مختلف طبقوں کا زیادہ سے زیادہ اعتماد حاصل کرنے اور اس ذہنی اور روحانی خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہوجاتے جس کو جدید طبقہ عرصہ سے شدت کے ساتھ محسوس کررہا ہے، یہ اسی وقت ہوسکتا تھا، جب فکر اسلامی کے علمبردار اور داعی کچھ عرصہ پورے صبر و استقلال کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتیں اور قوتیں اسلامی طریقہ زندگی کو قبول کرنے کے لئے دماغوں اور دلوں کو تیار کرنے اور نوجوانوں کی ذہنی و روحانی تسکین کے کام پر مرکوز کردیتے اور تمام میدانوں سے یکسو ہوکر اسی کو اپنی جدوجہد کا میدان بنالیتے، اسی کے ساتھ پاکستان کو ایک ایسی دینی قیادت میسر آتی جس میں شخصیت کی دل آویزی اور سحر انگیزی کے ساتھ کھلا ہوا علمی تفوق، ممتاز دماغی صلاحیت، قلب کا گداز اور حرارت، پر اثر گہری روحانیت، بے غرضی اور بے ہمہ اور باہمہ ہونے کی صفت اور ایسا اخلاص جمع ہوتا جو ہرشک وشبہ اور تمام سیاسی اختلافات سے بالاتر نظر آتا، غرض پاکستان کو وہ میرِ کارواں نصیب ہوجاتا جس کی تعریف اقبال نے ان الفاظ میں کی ہے۔