حرف آغاز
اس وقت تقریباً تمام مسلمان ممالک میں ایک ذہنی کشمکش اور شاید زیادہ صحیح الفاظ میں ایک ذہنی معرکہ برپا ہے، جس کو ہم اسلامی افکار و اقدار اور مغربی افکار و اقدار کی کشمکش یا معرکہ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ان ملکوں کی قدیم تاریخ، مسلم اقوام کی اسلام سےگہری وابستگی اور محبت اور جس نام پر جنگ آزادی لڑی اور جیتی گئی یا جس طاقت کے سہارے ان ملکوں کی آزادی کی حفاظت کی گئی، سب کا دعویٰ ہے کہ اس سرزمین پر صرف اسلامی افکار و اقدار کا حق ہے اور یہاں صرف اس مسلک زندگی کی پیروی جائز ہے جس کی اسلام نے دعوت دی ہے۔
لیکن اس کے برعکس جس طبقہ کے ہاتھ میں اس وقت ان ممالک کی زمام کار ہے، اس کو ذہنی ساخت، اس کی تعلیم و تربیت اور اس کی ذاتی و سیاسی مصالح کا تقاضا ہے کہ ان ممالک میں مغربی افکار و اقدار کو فروغ دی جائے اور ان ممالک کو مغربی ممالک کے نقش قدم پر چلایا جائے اور جو دینی تصورات، قومی عادات، ضوابط حیات اور قوانین و روایات اس مقصد میں مزاحم ہوں، ان میں ترمیم و تنسیخ کی جائے اور بالاختصار یہ کہ ملک و معاشرہ کو تدریجی طور پر (لیکن عزم و فیصلہ کے ساتھ) "مغربیت" کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔
اس سلسلہ میں بعض ممالک اس سفر کی متعدد منزلیں طے کر چکے ہیں، اور اپنی منزل مقصود پر