ہمکنار کرتی جس کو آسمانی مذاہب اور خدا کے آخری پیغام اسلام نے قلبی سکون، داخلی اطمینان روحانی مسرت اور باہمی اعتماد کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، وہ ان زبردست، محیر العقول اور کثیر التعداد وسائل کو جو مقصد سے نا آشنا ہیں، مشرق کے ان نیک اور صالح مقاصد سے آشنا کرتی جو وسائل سے محروم ہیں، اس مغرب کو جو کر سکتا ہے، لیکن کرنے کا جذبہ نہیں رکھتا، اس مشرق سے بغل گیر کرتی جو کرنا چاہتا ہے، لیکن کر نہیں سکتا، دونوں میں سے جس کے پاس جو چیز ہوتی وہ دوسرے کو عطا کرتا اور انسانیت کی ترقی و خوش حالی میں دو حقیقی بھائیوں کی طرح دونوں مل جل کر حصہ لیتے، یہ عقلی اور ثقافتی نہر اگر وجود میں آ جاتی تو دنیا کے لئے ایک نئے دور کا آغاز اور ایک ایسا تاریخی کارنامہ ہوتا جس کو جدید تاریخ میں سب سے اولین اور نمایاں جگہ ملتی اور مصر کو اس کی بدولت عالمگیر قیادت کا منصب رفیع حاصل ہوتا۔
لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا تھا جب کہ مصر مغربی تہذیب اور غیر ملکی ثقاقت کی آمد کے وقت ہی سے اپنی دینی دعوت اور اس کے راستہ میں قربانی کا حوصلہ رکھتا، علوم عصریہ کو صحیح طور سے ہضم کرتا، ان کو مزید تقویت کا باعث بناتا اور اس اہم کردار کے لئے ان کو کام میں لاتا جس کی سہولتیں اور ذرائع اس کو دوسروں سے زیادہ حاصل تھے۔
مصر کا کمزور تقلیدی پہلو
لیکن مختلف سیاسی اور تعلیمی اسباب اور حالات نے مصر کو قیادت و رہنمائی اور مغرب کو متأثر کرنے کے اہم کردار سے غافل کر دیا اور اس کو مغرب کے ایک شاگرد اور مقلّد یا خوشہ چیں کی پوزیشن میں لا کھڑا کیا، اس نے اس نہر کے ثقافتی عمل کو صرف درآمد (IMPORT)