( جو اس جدید تعلیم یافتہ نسل کے نزدیک) حقائق و مسلّمات کا درجہ رکھتے ہیں اور روشن خیالی اور ترقی پسندی کی علامت ہیں، مغربی نظامِ تعلیم اور (محمد اسد صاحب کے الفاظ میں) اس کے ذہنی و فکری ماحول اور فضا اور اس کے تاریخی ورثہ کا نتیجہ ہیں۔
آپ کو ترکی سے لے کر انڈونیشیا تک مسلمان ممالک کے جتنے سربراہ اور رہنما نظر آئیں گے وہ اسی مغربی تعلیمِ نظام کی پیداوار ہیں، ان میں سے جن کو براہ راست کسی مغربی ملک یا یورپ کے کسی مشہور تعلیمی مرکز میں پڑھنےاور پروان چڑھنے کا موقع نہیں ملا، انھوں نےاپنےملک میں رہ کر اس نظامِ تعلیم سے ( اس کے مخلص نمائندوں کی نگرانی و سرپرستی میں) پورا فائدہ اٹھایا، ان میں سےمتعدد اشخاص نے ملٹری کالجوں میں تعلیم پائی جہاں مغربی طرزکی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔
اس بنا پر آج عالمِ اسلام میں دو ذہنوں، دو فلسفوں، دو معیاروں اور دو رخوں کے درمیان جو کشمکش برپا ہے، اور جو عام طور پر منتج ہوتی ہے، زیادہ طاقتور، مسلح، صاحبِ اختیار و اقتدار گروہ کی کامیابی پر، وہ بالکل قدرتی ہے، وہ اگر ہےتو خواہ کتنے تاسف کی بات ہو، تعجب کی بات نہیں، تعجب اس وقت ہوتا ہے، جب یہ کشمکش اور تجدّد مغربیت کی یہ رحجان پایانہ جاتا۔
زہر کا تریاق
اس کا علاج ( خواہ وہ کتنا ہی مشکل اور کتنا ہی دیر طلب ہو) اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نظام تعلیم کو از سرنو ڈھالا جائے، اس کو مسلمان اقوام کے عقائد و مسلّمات اور مقاصد اور ضروریات کے مطابق بنایاجائے، اس کے تمام علوم و مضامین سے مادہ پرستی، خدا بیزاری، اخلاقی و روحانی اقدار سے بغاوت اور جسم پرستی کی روح نکال کر اس میں خدا پرستی، خدا طلبی، آخرت کوشی، تقوی شعاری اور انسانیت کی روح پیدا کی جائے،