اس صورت حال کا علاج
اس صورتِ حال کو کوئی فوجی طاقت، کوئی تعزیر اور کوئی سزا اور کوئی احتساب و نگرانی روک نہیں سکتی، اور نہ اخباری اور ریڈیائی پروپیگنڈا، مال و دولت کے ذریعہ قلب و ضمیر کی خریداری، سفارتوں کی پرتکلف اور شاندار تقریبات، اہل دین کو خوش کرنے کے لئے کچھ منصوبے، بین الاقوامی اسلامی کانفرنسیں اور سیمینار جن سے ان ملکوں کی اسلام سے دلچسپی کا وقتاً فوقتاً اعلان کیا جاتا رہتا ہے، محدود ادارے اور دینی مظاہر اس انقلاب اور بغاوت کا راستہ روک سکتے ہیں۔
اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ حقائق اور واقعات کا جرات و دور اندیشی اور صحیح دینی روح اور دینی بصیرت کے ساتھ سامنا کیا جائے، اور ملک میں دین کی صحیح تعلیم کے مطابق ہمہ گیر، صالح اور ضروری تبدیلی کے لئے صدق دل اور اخلاص کے ساتھ کوشش شروع کی جائے جن چیزوں کا ازالہ اور سدباب ضروری ہو ان کا سدباب کیاجائے، جن اصلاحات کا نفاذ اور جن اسکیموں کا آغاز ضروری ہو، ان کے آغاز میں دیر نہ کی جائے، اسلام، قرآن اور سنتِ رسول اللہﷺ کی روشنی میں اور اسلامی حدود کے مطابق معاشرہ میں مساوات اور انصاف قائم کیا جائے، اہل ملک کی خوش حالی اور فارغ البالی کے لئے ضروری قدم اٹھائے جائیں، کم از کم جمہور کے ہر فرد کے لئے امکانی حد تک ضروریاتِ زندگی کا بندوبست ہو، اس بے جا اسراف اور حد سے بڑھی ہوئی فضول خرچی کو ختم کیا جائے، جو عوام کی حقیقی ضروریات بھی پوری ہونے نہیں دیتی، اغنیاء واہلِ ثروت میں ایثار کا مادہ، اور ضروریات سے فاضل مال کے خرچ کا جذبہ اور ’’وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘ پر عمل کرنے کا شوق ہو اور فقراء میں استغناء وخودداری اور اپنے گاڑھے پسینہ اور محنت و قابلیت سے اپنی ضروریاتِ زندگی کے بندوبست کا جذبہ ہو، نظامِ