اس روش پر اصرار کیا گیا جو ہندوستان میں بانی درس نظامی (ملا نظام الدین لکھنوی م ۱۱۶۱ھ) اور مشرق وسطیٰ میں اٹھارھویں صدی کے علماء ازہر کے زمانہ میں قائم ہوگئی تھی، فقہ و قانون اسلامی میں توسیع و اضافہ، ان نئے مسائل میں (جو جدید اکتشافات نئی اقتصادیات اور نئی تنظیمات نے پیدا کر دیئے تھے) اجتہاد سے کام لینا چھوڑ دیا گیا، اجتہاد جو اپنے اعلٰی، نازک اور نہایت ضروری شرائط (۱) کے ساتھ بہرحال علماء اسلام کا فریضہ اور بدلے ہوئے زمانہ کی رہنمائی کا ذریعہ تھا، عملاً معطل و مسدود ہوگیا، اور ایک معاصر عرب عالم (۲) کے بلیغ الفاظ میں "علماء کے نزدیک اس دروازہ کو کھولنا تو (شرعاً) ممنوع نہیں تھا، مگر جس کنجی سے وہ کھل سکتا تھا، وہ عرصہ سے گم شدہ تھی۔"
اسلامی علوم، معارف قرآنی اور شریعت اسلامی کے لئے جس طاقتور، موثر و دلپذیر و دلنشیں تعبیر و تشریح اور اس کے لئے زبان و ادب کے اس نئے دور میں جس اسلوب اور پیرایہ بیان کی ضرورت تھی، وہ اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور تھا، ایسے علماء خال خال پائے جاتے تھے، جو ان دینی حقائق کی ابدیت، زندگی کی صلاحیت اور اسلام کی فوقیت و برتری کا نقش جدید طبقہ کے دل و دماغ پر قائم کر سکیں اور اپنی بھرپور علمی تنقیدوں اور ماہرانہ تحلیل و تجزیہ سے تہذیب جدید کے طلسم کو توڑ سکیں۔
قانون اسلامی کی تدوین جدید کی ضرورت!
اس میں شبہہ نہیں کہ عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں ایسی ممتاز دینی شخصیتیں
------------------------------
۱۔ جن کی تفصیل کتب اصول فقہ میں ہے۔
۲۔ استاذ مصطفٰے احمد الزرقاء، استاذ فقہ اسلامی جامعہ عمان و سابق وزیر قانون حکومت شام۔