زندگی ایں را خروج آں را اخراج
درمیانِ ایں دوسنگ آدم زجاج
ایں بہ علم ودین وفن آرد شکست
آں بردجاں رازتن ناں راز دست
غرق دیدم ہردو را در آب وگل
ہر دو را تن روشن وتاریک دل
زندگانی سوختن باساختن
درگلے تخمِ دلے انداختن ۱؎
۔۔۔
غریباں گم کردہ اند افلاک را
درشکم جویند جانِ پاک را
رنگ وبو ازتن نگیرد جانِ پاک
جزبہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبرِ حق ناشناس
برمساواتِ شکم وارد اساس
تااخوت را مقام اندردل است
بیخِ او در دل نہ در آب وگل است ۲؎
مغربی تہذیب اور اسلامی ممالک
محمد اقبال کا خیال تھاکہ مغربی تہذیب جو خود جاں بلب ہے اسلامی ممالک کو کوئی نفع نہیں پہونچاسکتی اور نہ اس میں دوبارہ زندگی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، کہتے ہیں:۔
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی وتقلید سے کور
زندہ کرسکتی ہے ایران وعرب کو کیونکر
یہ فرمگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور ۳؎
مغرب نے مشرق کو احسان کا جو بدلہ دیا ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔
------------------------------
۱۔ جاوید نامہ ص: ۷۰
۲۔ ایضاً ص: ۶۹
۳۔ ضرب کلیم ص: ۶۸