انڈونیشیا
تجدد اور مغربیت کے بارے میں آزاد ہونے والے مسلم ممالک کی جو عام روش ہے، اور حکومت کے نامذہبی ڈھانچہ کے ناگزیر ہونے، اسلامی قانون کے اس زمانہ میں ناقابل عمل ہونے کا عقیدہ، اور مغربی افکارو اقدار کے اختیار کرنے کا جو عام رجحان پایا جاتا ہے، انڈونیشا(جس کی تقریبا 90 فی صد آبادی مسلمان ہے) اس بارہ میں کوئ استثناء نہیں رکھتا، باوجود اس شدید اور طویل خونیں کشمکش کے جو دار السلام کی تحریک کی شکل میں برسوں جاری رہی اور اب تقریبا دم توڑ چکی ہے، سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر احمد سکارنو کی رہنمائ میں ملک کا حکمراں طبقہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے ماتحت اس کو ترکی کے نقش قدم پر لے جارہا تھا، مشہور امریکی مبصر لوئ فشر(LOUIS FISHER) نے اپنی کتاب (THE STORY OF INDONESIA)میں مختصر الفاظ میں اس وقت کے موجودہ صورت حال کا نقشہ کھینچا ہے، اور صاحب اقتدار طبقہ کے ذہن کی صحیح ترجمانی کی ہے، وہ لکھتا ہے:
تنہا غیر اشتمالی(NON-COMMUNIST) مسلمان ملک جو ایک گہرے تہذیبی انقلاب سے گذرا ہے، وہ ترکی ہے، جہاں کمال پاشا اتاترک نے ریاست کا مذہب (اسلام) منسوخ کردیا، شرعی عدالتیں، خلافت، پردہ،حرم، اور عربی رسم الخط کا استعمال قانونا ممنوع ہوگیا، اس کے باملقابل مغربی لباس، لاطینی رسم الخط، عمومی تعلیم، عورتوں کا حق رائےدہندگی، اتوار کی تعطیل اور قوم پرستی کوقانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔
جہاں تک انڈونیشیا کا تعلق ہے،وہاں ان اصلاحات میں سے کسی اصلاح یا تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی، اس حد تک انڈونیشیا میں خود مغربی انقلاب آچکا ہے، انڈونیشیا کا جمہوریہ نہ مذہبی ہے، اگرچہ ۱۹۴۵ء اور۱۹۵۰ء کے دستور اعلان کرتے ہیں کہ اس ریاست کی بنیاد خدا کا یقین ہے، لیکن صدر جمہور سے لے کر ایک ادنیٰ سرکاری ملازم یا عہدہ دار کےلئے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے اور نہ کسی سرکاری ملازم یا عہدہ دار کے لئے یہ ضروری ہےکہ وہ وفاداری کےلئے خداکےنام یا محمد(ﷺ)کےساتھ قسم کھائے۱؎،ہرشخص کو اپنے پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس پر قائم رہنے کی دونوں دستور میں آزادی دی گئی ہے۔
------------------------------
۱؎ مغربی مصنف کو یہ خبر نہیں کہ اسلام میں اللہ کے نام کے علاوہ کسی کے نام کی قسم کھانا جائز نہیں۔