ڈھالنے کا ’’ضروری‘‘ کام شروع کر دیتے ہیں، اور اس میں اتنی عجلت اور شدت سے کام لیتے ہیں کہ بعض اوقات وہ لوگ جنھوں نے بے دریغ قربانیاں دی تھیں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ انھوں نے شاید غلطی کی اور ملک کی آزادی اسلامی زندگی اور مذہبی آزادی کے حق میں مفید ہونے کی بجائے مضر ثابت ہوئی، ۱۹۲۴ء کے ترکی سے لے کر ١۹٦۲ء کے الجزائر تک یہ ایک مسلسل داستان ہے جس میں کوئی استثناء نظر نہیں آتا، اور عرب ممالک بھی پورے عزم و ارادہ اور جوش و خروش کے ساتھ اسی ترکی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جس کے اقتدار کے خلاف انھوں نے کبھی بغاوت کی تھی، اور جس کی سیاست سے وہ اب بھی بڑے بیزار نظر آتے ہیں۔
تونس
ان آزاد ہونے والے عرب ممالک میں سب سے پہلے تونس کا نام آتا ہے، جس نے ۱۹۵۷ء میں آزادی اور حکومت خود اختیار حاصل کی، اس کے سب سے پہلے صدر الحبیب بورقیبہ نے اپنے پرجوش مسلمان عرب ملک ( تونس ) میں پوری سنجیدگی کے ساتھ کمالی اصلاحات و تجدد کے سلسلہ کا آغاز کر دیا، ان کے بیانات و رحجانات جو وقتًا فوقتًا اخباروں میں آتے رہتے ہیں، اور اپنی فرانسیسی تربیت و ثقافت کے مطابق جدید تونس کی تشکیل کر رہے ہیں، اس سلسلسہ میں ایک ایسے محتاط فرانسیسی اخبار کا اقتباس پیش کیا جاتا ہے، جس کو اس سے انکار ہے کہ جدید تونس لادینیت کے رخ پر جا رہا ہے۔
پیرس کا مشہور اخبار ( LE MONDE ) ۔ ۲۹ جنوری ۵۸ء کی اشاعت میں ’’ آزاد تیونس تیسرے سال کے دروازہ پر ‘‘ کے عنوان کے ماتحت لکھتا ہے:-