بالخصوص عالم عربی کا ناقابلِ تلافی نقصان اور بہت بڑا المیہ تھا۔
ادھر مصر میں ’’الاخوان المسلمون‘‘ کو کچھ آزادی حاصل ہوئی ہے لیکن ان کے مستقبل اور ان کی سرگرمیوں کے اعادہ کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا بہت مشکل ہے، جو دور ابتلا سے پہلے جاری تھیں، برسوں کے ناغہ کے بعد قاہرہ سے ماہنامہ ’’الدعوۃ‘‘ پھر نکلنا شروع ہوگیا ہے، اور اس کے پڑھنے والوں اور شائقین کی تعداد ایسی ہوگئی ہے، جو عام طور پر کسی نئے رسالے کو حاصل نہیں ہوتی، اس سے مصری مسلمانوں کے دلوں میں اخوان ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے اثر و اہمیت کا صاف پتہ چلتا ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری مدت میں اخوان کا خلا پر نہیں ہوا تھا، اور اخوان اور ان کے ترجمان ’’الدعوۃ‘‘ کو اسلامی قیادت کے میدان میں ایک بار پھر آنا پڑا۔۔ وللہ الامر من قبل ومن بعد۔
۲۳؍ جولائی کا انقلاب مصر اور اس کے اثرات
غیر ملکی ثقافت، مغرب پرستی کی دعوت، اور مغرب کی وہ مادی تحریکیں اور فلسفے جو باہر سے درآمد کئے جارہے تھے، اور ان کو پھیلانے کے لئے ملک کے بڑے بڑے ادباء، اہل قلم اور مصنفین رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کررہے تھے، لوگوں کے ذہنوں میں اپنا قدرتی عمل کرتے رہے، یونیورسٹی کا نوجوان طبقہ، نئی نسل کے افراد اور فوج کے افسران اس پر وارفتگی کے ساتھ ٹوٹے پڑتے تھے، اور ہر ذہین، انقلاب پسند اور حالات میں تبدیلی کا خواہشمند اس کو پورے ذوق کے ساتھ قبول کرنے پر آمادہ تھا، ان مسائل پر کثرت سے کتابیں شائع ہورہی تھیں، جن کو نوجوان اپنے فکری بلوغ کے قریب زمانہ میں پڑھتے، اس کو پوری طرح ہضم کرتے اور وہ ان کی فکر اور عقیدہ اور زندگی کی تمناؤں، حوصلوں کا ایک جزو لاینفک بن جاتیں، وہ ان فلسفوں کو