کرتا رہتا ہے، لیکن اپنی طاقت، سلطنت اور قیادت کے شباب میں بھی اور ظاہری اسباب پر تصرّف کے بعد بھی اپنے رب پر ایمان رکھتا ہے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے، آخرت پر یقین رکھتا ہے، اور اس کے لئے جدوجہد کرتا ہے، اپنے ضعف کا معترف ہے، انسانیت اور کمزور قوموں پر رحم دل اور حق کا حامی ہے، اور اپنی ساری قوت، جدو جہد، صلاحیتیں اور اپنے سارے وسائل اور ذخائر، اللہ کےنام کی بلندی اور انسانوں کو ظلمتوں سے نور کی طرف اور انسان کی بندگی سے اللہ کی بندگی کی طرف بلانے میں صرف کرتا ہے، وہ سیرت اور کردار جس کی نمائندگی سلیمان بن داود علیہماالسلام، ذو القرنین اور خلفاء راشدین اور ائمہ اسلام نے اپنے اپنے زمانہ میں کی ہے۔
زندگی، آخرت کے لئے ایک عبوری مرحلہ!
اس زندگی کے بارہ میں اس کی پالیسی اور موقف یہ ہے کہ وہ اس کو سب سے بلند مقصد "آورش" اور ترقی و کامیابی کی معراج نہیں سمجھتا، وہ اس کو ایک ایسا عبوری مرحلہ سمجھتا ہےجس کو پار کرنا انسان کے لئے ضروری ہے، اس کے نزدیک وہ عظیم تر کامیابی، لافانی اور پُر مسرّت زندگی کا ایک ذریعہ اور واسطہ ہے، قرآن مجید اس دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے مقابلہ میں اس کی بےحقیقتی بیان کرتے ہوئے بہت وضاحت اور قوت کے ساتھ کہتا ہے:-
فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌo (التوبہ - ۳۸)
( یاد رکھو) دنیا کی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے مگر تھوڑی!