کے بعد دینی بیداری کے آثار برابر نمایاں ہوتے چلے گئے، آنے والی حکومتوں نے بھی بہت سی بندشیں ڈھیلی کرنی مناسب سمجھیں، عوام نے دوبارہ اسلام کے ساتھ اپنے گہرے تعلق کا اظہار کیا اور متعدد بار اپنے انتخاب اور ووٹ کی طاقت سے اپنے لئے بہتر حالات اور ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی، اگر کوئی غیر معمولی بات پیش نہ آئی تو اب بھی اس کا امکان ہے کہ ترکی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے کوئی مفید خدمت انجام دے سکے، اور اسلام کو وہاں دوبارہ پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔
عالم اسلام میں اتاترک کی غیرمعمولی مقبولیت
یہ حالات تھے جنہوں نے ترکی کو تحریک تجدید بلکہ تجدد اور مغربیت کا امام اور اسلامی ملکوں اور حکومتوں کے ’’ترقی پسند‘‘ زعماء کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ اور مثال اور کمال اتاترک کو عالم اسلام کے ترقی پسند معاشرہ اور نئی نئی آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں ترقی وانقلاب کا رمز (SYMBOL) اور اہلِ سیاست اور اہل فکر دونوں کے لئے ایک ہیرو اور آئیڈیل بنا دیا، آزاد اسلامی ممالک کے برسر اقتدار طبقہ اور سیاسی زعماء میں ہمیں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا، جس نے اتنی محدود وسطحی ذہنی و علمی صلاحیت اور اخلاقی پستی ١؎ کے باوجود لوگوں کے دل ودماغ کو اس درجہ مسحور اور اپنی شخصیت اور کارناموں سے اس قدر متاثر کیا ہو اور اپنی تقلید و پیروی کی اتنی زبردست خواہش لوگوں کے دلوں میں پیدا کردی ہو جتنی کہ کمال اتاترک نے اس عہدِ آخر میں کی۔
------------------------------
۱۔ عرفان اورگا نے اپنی کتاب (ATATURK) میں اس پر بڑی روشنی ڈالی ہے، خصوصیت کے ساتھ ملاحظہ ہو ص: ۲۵۲۔