کیمسٹری کا علم عربی نہیں کہلایا، اسی طرح الجبرا اور علم مثلثات کو اسلامی علوم نہیں کہا گیا حالانکہ اول الذکر کا موجد خوارزمی ہے، اور موخر الذکر کا بتّانی، اور یہ دونوں ہی مسلمان تھے، ٹھیک اسی طرح نظریہ کشش کو کوئی انگریزی علم نہیں کہہ سکتا، اگرچہ اس کا موجد انگریز تھا یہ بڑے بڑے علمی کام نوع انسانی کی مشترک میراث ہیں۔
اسی طرح اگر مسلمان (جیسا کہ ان کےاوپر واجب ہے)صنعتی علوم و فنون کے نئے ذرائع اپناتے ہیں تو صرف ارتقاء و ترقی کی فطری خواہش اور جذبہ سے کرتے ہیں، دوسروں کے تجربات اور معلومات سے فائدہ اٹھانے کی فطری خواہش اور جذبہ، لیکن اگر وہ ( اور ان کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے) مغربی زندگی کی اشکال (FORMS) آداب و عادات (MANNERS)
اور مغرب کے اجتماعی تصورات کو اپناتے ہیں تواس سےان کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہ ہوگا، اس لئےکہ یورپ ان کو اس میدان میں جو دے سکے گا وہ اس سے بہتر نہیں ہوگا جو خود ان کی ثقافت اور ان کے دین نے ان کو عطا کیا ہے۔
اگر مسلمان ذرا ہمت بلندکریں اور حوصلہ سےکام لیں اور ترقی کو ایک ذریعہ اور وسیلہ کی حیثیت سے اپنائیں تو وہ اس طرح نہ صرف اپنی باطنی حریت کی حفاظت کرسکیں گے بلکہ شاید یورپ کے انسان کو زندگی کے گم شدہ لطف کا راز بھی بتاسکیں گے۔"۱؎
ممالک اسلامیہ میں اسلامی تمدن کی اہمیت
تمدن کی جڑیں، انسانی نفسیات اور قوم کے جذبات و احساسات کی گہرائیوں
------------------------------
۱؎ ROAD TO MECCA P.347,343 ترجمہ ماخوذاز "طوفان سے ساحل تک"ص ۱۸۷-۱۸۹