اور ہر زمانہ اور ہر ملک میں مسلمانوں کا اس پر ایمان رہا ہے، ’’عرب‘‘ اور ’’عربیت‘‘ کے لفظ خدا کے نام کے ساتھ شریک کئے گئے اور کہنے والوں نے کہا کہ ’’العزۃ للہ و للعرب‘‘ کہ عزت اللہ کے لئے مخصوص ہے، اور عربوں کے لئے‘‘ انہوں نے ہر اس شخص کی ہمت افزائی کی جس نے اس میں غلو اور مبالغہ سے کام لیا خواہ وہ الحاد کی حدتک پہونچ گیا ہو، اور اسلام ہی سے خارج ہوگیا ہو انعامات، القابات، تعریف و تحسین اور داد و دہش کے مختلف طریقوں سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی، اہل قلم اور اخبار نویسوں کو اس معاملہ میں بالکل چھوٹ دیدی گئی کہ وہ جوچاہیں لکھیں، رسائل و اخبارات کو اس کی آزادی حاصل ہوگئی کہ دین اور اس کے شعائر کا کھلم کھلا مضحکہ اڑائیں، دین کی بے حرمتی کریں اور سوسائٹی میں بے حیائی، بے راہ روی اور فسق وفجور پھیلائیں، پریس کو قومیانے (NATIONALISATION) کرنے سے ان چیزوں میں کچھ اضافہ ہی ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحافت میں عریاں اور فحش تصویروں، گندے اور جنسی افسانوں اور جرائم و جنسی جذبہ کی محرک خبروں اور واقعات کی تعداد بہت بڑھ گئی، اس کا درپردہ مقصد یہ تھا کہ رفتہ رفتہ سوسائٹی اور عقلیت کو بالکلیہ تبدیل کردیا جائے اور اس پر مادی رنگ اور اشتراکی طرز پوری طرح غالب آجائے۔
سوسائٹی کی اس ہمہ گیر تبدیلی کے لئے انہوں نے دوسرے متعدد عملی اقدامات کئے، جامع ازہر کے نظام میں تبدیلی کی گئی، شرعی عدالتیں، محکمہ قضا اور دینی اوقاف کا سلسلہ ختم کردیا گیا، مخلوط تعلیم ، کلچرل تقریبات اور رقص وسرود کے ساتھ غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا۔
مصری انقلاب اور قیادت کا عالم عربی پر برا اثر
وہ تمام زندہ دل اور حوصلہ مند نوجوان جن کو عربوں کی عزت و سربلندی کی فکر تھی، اور وہ ان کو طاقتور اور متحد شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، وہ ’’قومیت عربیہ کے علمبرداروں‘‘ کو اپنا