کمال اتاترک کا فکری نشوونما، ذہن و مزاج اور طبعی خصوصیات
مصطفیٰ کمال کے والد کا نام علی رضا بے تھا، ۱۲۹۸ھ ۱۸۸۱ء میں سالونیکا میں پیدا ہوئے، ان کا اصل خاندان اناطولیہ کے ایک گاؤں میں آباد تھا، پہلے ایک ایسے ابتدائی مدرسہ میں داخل ہوئے جو یورپین طرز پر چلایا جارہا تھا، پھر ایک ہائی سکول میں رہ کر ایک سال تعلیم حاصل کی پھر اس کو چھوڑ کر فوجی کالج میں داخلہ لیا اس کے بعد استنبول کے فوجی کالج میں داخل ہوئے، اور فوجی افسر کی حیثیت سے ملک کے سامنے آئے، یہ سلطان عبدالحمید ثانی کا عہد تھا، ان کے خلاف مصطفیٰ کمال بعض سازشوں میں ماخوذ ہوئے اور گرفتار ہوکر دمشق جلا وطن کردئیے گئے، وہاں خفیہ طور پر سالونیکا بھاگ آئے اور انجمن اتحاد و ترقی میں شامل ہوکر فوج میں بھرتی ہوئے اور مقدونیہ کی ریلوے لائن کی تعمیر ان کے سپرد ہوئی، ۱۳۲۷ھ ۱۹۰۹ء میں سلطان عبدالحمید معزول ہوگئے، ۱۹۱۰ء میں وہ اٹاچی بن کر فوجی مشن پر فرانس گئے، اس سفر نے ان کو ترکی کی ترقیات اور انتظامات کی طرف سے غیر مطمئن اور جرمنی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی طرف سے بے چین کردیا، اس وقت ترکی پر عملاً چار آدمیوں کی حکومت تھی انور، طلعت، جاوید اور جمال، مصطفیٰ کمال کا ان سے سخت اختلاف تھا، کمال کو بین الاقوامی مقاصد یا ترکی کے باہر عثمانی سلطنت کی توسیع سے کوئی دلچسپی نہ تھی، وہ اس پالیسی کو ملک کے لئے مہلک اور تباہ کن سمجھتے تھے، ادھر انور ان کو ناپسند کرتے تھے، ۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان شروع ہوئی، وہ بلقانی شہروں سے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے ہجوم، ان کی بے بسی اور ناگفتہ بہ حالت سے سخت متاثر ہوئے، بلقان کی ریاستوں میں اختلاف ہوجانے کی وجہ سے ترکوں نے اڈریانوپل پر دوبارہ قبضہ کرلیا، انور وزیرجنگ ہوئے اور وہ اپنی ترقی و اعزار کے آخری مدارج پر پہونچے، انور کی کوشش تھی کہ تمام مسلمانوں کو خلیفۃ المسلمین کے جھنڈے کے نیچے لے آئیں انور نے جرمنوں کو ترکی کی