عالم عربی میں مغربی فکر کے اولین نقیب
وہ نوجوان جو نئی نسل کا جوہر اور ملت کا سرمایہ تھے، پہلے مصرمیں جدید علوم حاصل کرتے، اور کے بعد یورپ کے جدید تعلیمی مراکز کا سفر کرتے اور مغربی تہذیب کے سمندر میں غوطہ لگاتے، اس مغربی ماحول میں مطالعہ و تجزیہ، فکری آزادی اور اخلاقی جرات کی تعلیم دی جاتی تھی، اور تقلید اور کسی چیز کو اس کی کمزوریوں کے ساتھ آنکھ بند کرکے قبول کرلینا معیوب اور قابلِ احتراز بات سمجھی جاتی تھی، ایسی حالت میں یہ بات ہر طرح متوقع اور قرینِ قیاس تھی کہ ان مشرق نژاد مسلمان نوجوانوں میں (جنہوں نے مصر جیسے اسلامی ملک اور علمی و دینی مرکز میں ہوش سنبھالا اور قرآن مجید کا جو ہر زمانہ کا لافانی معجزہ ہے مطالعہ کیا) ایسے افراد پیدا ہوں جن کے ذوقِ سلیم کو مغربی تہذیب اور مغربی فکر کی بنیادی کمزوری، مادیت میں غلو، قومیت میں مبالغہ اور انسان اور اس کی عقل اور روح کی بلند پروازیوں اور ترقیوں کا محدود مادی تصور بری طرح کھٹکے اور چبھے، اور ان میں اسلامی حمیت و غیرت، بلند انسانی اقدار کی محبت اور اس جھوٹی اور مصنوعی تہذیب سے نفرت اور اس کے خلاف بغاوت کی ایک نئی روح پیدا ہو، ان میں ڈاکٹر اقبال جیسا آزاد اور روشن ضمیر مفکر اور محمد علی ۱؎ جیسا انقلابی اور داعی پیدا ہو، واقعہ یہ ہے کہ مصر اور دوسرے عرب ممالک میں ایسے باغی افراد کا پیدا ہونا زیادہ قرین قیاس تھا، اور ان کی تعداد غیرعرب اورغیرمسلم اکثریت والے ملکوں سے قدرۃ زیادہ ہونی چاہیے تھی۔
------------------------------
۱۔ مولانا محمد علی کی طاقتور و دل آویز و مخلص شخصیت اور ان کی خصوصیات کے لئے ملاحظہ ہو، مولانا عبد الماجد دریابادی کی کتاب ’’محمد علی کی ذاتی ڈائری‘‘۔