یہ تہذیب، حقائق، نئے مسائل اور وقت کے نئے تقاضوں کے معاملہ میں (بغیر مبالغہ اور خیال آرائی اور تخیل پسندی کے) ریشم کی نرمی رکھتی ہے، عقیدہ و اخلاق کی سرحدوں پر وہ فولاد سے زیادہ سخت ہے، اور پہاڑوں کی طرح ثابت قدم اور غیور، وہ دنیا کے علوم کے بارہ میں خواہ وہ کسی دور دراز ملک اور خطہ میں ہوں اپنی ضمیر و عقل کی آنکھ کھلی رکھتی ہے اور سینہ کشادہ، نیز ان تنظیموں اور منصوبوں کو قبول کرنے کے لئے آمادہ رہتی ہے، جو نہ دین کو مجروح کرتے ہیں، نہ اس کے اخلاقی نظام میں کوئی تغیر پیدا کرتے ہیں۔
مغرب سے استفادہ کا حقیقی میدان اوراس کے حدود!
یہاں پر محمد اسد صاحب کی کتاب (ROAD TO MECCA) کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے، جس میں خیالات کا توازن اور فکر و نظر کی پختگی بہت نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے اور جس میں انھوں نے بہت خوبی کے ساتھ اس شاہراہ کی نشاں دہی کی ہےجس پر عالمِ اسلام کو مغرب سے استفادہ اور جدید وسائل سے کام لینے کے میدان میں چلنا چاہئے، وہ کہتے ہیں:-
"عالم اسلام اور یورپ کبھی ایک دوسرے سے اتنےقریب نہیں ہوئے تھے جتنے آج ہیں، اور یہی قرب اس ظاہری اور پوشیدہ کشمکش کا باعث ہے جو آج ان دونوں میں پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد (مردوں، عورتوں) کی روحیں مغربی ثقافت کے اثر سے آہستہ اہستہ سکڑتی اور سمٹتی جا رہی ہیں، اپنے اس گذشتہ احساس سے وہ دور ہوتے جا رہے ہیں کہ معیار معیشت کی درستی اور اصلاح، صرف انسانوں کے روحانی احساسات کی اصلاح و ترقی کا ایک ذریعہ ہے، وہ اسی ترقی کے بت کی پرستش کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے یورپ تباہ ہو رہا ہے،