امتحان بن گیا ہے۔
منفی رویہ
اس نئی اور پیچیدہ صورتِ حال سے نپٹنے کے لئے قدرتی طور پر تین موقف (رویے) ہوسکتے ہیں۔ پہلا موقف یا رویہ منفی اور سلبی (Negative) ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمِ اسلام اس تہذیب کے سارے نتائج اور فوائد کا یکسر انکار کردے اور اس کی کوئی اچھی بری بات سننے کا روادار نہ ہو، یا غیر جانبداری اختیار کرکے کنارہ کش ہوجائے، نہ اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھائے، نہ ان علوم کو ہاتھ لگانے پر تیار ہو جن میں اہلِ مغرب کو تفوق و امتیاز حاصل ہے، طبیعیات، ریاضیات اور ٹیکنالوجی جیسے علوم میں بھی وہ مغرب سے استفادۂ علمی کو حرام اور اپنے لئے ’’شجرۂ ممنوعہ‘‘ سمجھے اور جدید آلات، مشینیں، سازو سامان اور ضروریاتِ زندگی کے قبول کرنے سے بھی گریز کرے۔
اس موقف کی طبعی اور شرعی حیثیت اور اس کے نتائج!
اس موقف کا قدرتی نتیجہ عالم اسلام کی پسماندگی اور زندگی کے رواں دواں قافلہ سے بچھڑنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا، اس سے عالمِ اسلام کا رشتہ باقی دنیا سے منقطع ہوجائے گا اور وہ ایک محدود وحقیر جزیرہ بن کر رہ جائے گا، جس کا گردوپیش کی دنیا سے کوئی پیوند نہیں ہوگا، سمندر میں ایسے بےشمار جزیرے ہوسکتے ہیں، لیکن خشکی میں اس طرح کے جزیروں کی گنجائش نہیں، اور فطرتِ انسانی سے (جو اپنے ماحول سے کم وبیش متاثر و مستفید ہوتی ہے) جنگ کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔
ان سب حقائق کے علاوہ یہ رویہ کوتاہ نظری پر بھی مبنی ہے، اس سے فطری قوتوں اور وسائل میں تعطل پیدا ہوتا ہے، اور یہ اس دینِ فطرت کی صحیح ترجمانی اور تعبیر نہیں ہے، جس نے کائنات میں