ڈاکٹر اقبال اور مغربی تہذیب پر ان کی تنقید
بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مسلم نوجوانوں نے مغربیات کے مطالعہ و تحقیق کا آغاز کردیا تھا، وہ ہندوستان کی اعلیٰ یونیورسٹیوں اور تعلیم گاہوں میں مغربی علوم و افکار کا گہرا مطالعہ اور تجربہ کر رہے تھے، فاتح تہذیب اور اس کے علمبرداروں سے مرعوبیت اب روز بروز کم ہو رہی تھی، ہندوستانی مسلمان اعلیٰ تعلیم کے لئے اب یورپ آنے جانے لگے تھے، جن میں سے بعض یورپ کے بڑے بڑے تعلیمی مرکزوں میں طویل عرصہ تک قیام کرکے وہاں کے علمی سرچشمہ سے سیراب ہوتے اور جدید علوم کو ممتاز اور آزاد فکر اساتذہ کی رہنمائی میں حاصل کرتے، وہ مغربی تہذیب سے محض کتابوں کے ذریعہ نہیں بلکہ اس کے بہترین نمائندہ اشخاص کے ذریعہ تعارف حاصل کرنے اور اس کے قلب و جگر میں اتر کر اور اس کی تہ میں پہنچ کر اس سے اس طرح واقف ہونے کی کوشش کرتے جس طرح کوئی تعلیم یافتہ یورپین کرسکتا ہے، وہاں کے فلسفوں، نظاموں اور مختلف مکاتب خیال کا جائزہ لیتے اور ان کے مضمرات حقائق و اسرار تک پہونچنے کی کوشش کرتے، ان کو مغرب کے ذہن و مزاج، اس کے قومی غرور اور احساس برتری اور اس کے عوام کی خود پسندی اور انانیت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتا، اس سوسائٹی میں زوال و انحطاط اور ذہنی افلاس کی ابتدائی علامتیں اور آثار ان پر واضح ہوئے، وہ صالح اور تعمیری اجزاء بھی ان کی نظر میں آئے جو انسانیت کے لئے فلاح بخش ہوسکتے ہیں، اسی طرح وہ تخریبی اور انسانیت دشمن اجزاء بھی (جو اس تہذیب کے خمیر میں شروع سے موجود ہیں) ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوسکے، ان سب مشاہدات نے ان کے دل و دماغ میں ایسے احساسات اور معانی اجاگر کئے جن کا حصول اتنے طویل قیام