بالائے طاق رکھ دیا، وہ اپنے آبا کی تعلیمات سے متنفر ہے، وہ یورپین سے کہتا ہے کہ دیکھو میری اپنی ریلیں ہیں، اپنے اسکول، اپنے اخبارات، اپنی عدالتیں اور جملہ دیگر اشیاء جو تمہاری تہذیب کا جزو ہیں (میرے یہاں بھی موجود ہیں) پس میں تم سے کس طرح کمتر ہوں؟
لیکن افسوس اسلامیت سے برگشتہ مسلمان اگرچہ اس کو اس خامی کا علم نہیں (یوروپین سے) ایک حیثیت سے کمتر ہے، جس کو رفع بھی بہ آسانی نہیں کیا جاسکتا، ایک مہذب یوروپین جہاں تک ہم سمجھتے ہیں اگرچہ پختہ عیسائی نہ ہو لیکن پھر بھی وہ بڑی حد تک عیسائیت ہی کی پیداوار ہے، اور اگر انیس سوسالہ عیسائی تہذیب اس کی پشت پر نہ ہوتی تو وہ وہ نہ ہوتا جو کہ وہ (حقیقتاً) ہے۔‘‘ ۱؎
مصر میں آزادیٔ نسواں کی تحریک اور اس کے اثرات
مغربی تہذیب ومعاشرت سے گہرے تاثر کی ایک واضح مثال آزادیٔ نسواں کے مشہور مصری نقیب قاسم امین کی کتاب ’’تحریر المرأۃ‘‘۲؎ (عورت کی آزادی) نیز ان کی دوسری کتاب ’’المرأۃ الجدیدۃ‘‘۳؎ (خاتون جدید) ہے۔
پہلی کتاب میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’بے پردگی کی دعوت میں دین سے کوئی مخالفت نہیں پائی جاتی، ان کا بیان ہے کہ شریعتِ اسلامی چند کلیات اور عمومی حدود کا نام ہے، اگرجزئیاتِ احکام بیان کرنا اس کا وظیفہ ہوتا تو اس میں عالمگیر قانون بننے کی
------------------------------
۱۔ IBID P.232
۲۔ سن اشاعت ۱۸۹۹ء
۳۔ سن اشاعت ۱۹۰۰ء اس کتاب کا جواب مشہور مصری فاضل فرید وجدی مرحوم نے دیا جو ’’المرأۃ المسلمہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی جس کا ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اپنے ابتدائی دور میں اردو میں کیا تھا۔